دوحہ(نیوز ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا کی درخواست پر پاکستان کی جانب سے سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کی کوششیں سست روی سے آگے بڑھ رہی ہیں.واشنگٹن کی جانب سے حوصلہ افزائی پر عمران خان نے گزشتہ برس اکتوبر میں تہران اور ریاض کا دورہ کیا تھا تا کہ خلیج میں تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد بات چیت میں سہولت کاری فراہم کرسکیں‘ رپورٹ کے مطابق امریکا ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کرتا ہے قطری نشریاتی ادارے ایک انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہماری ثالثی رکی نہیں ہم آگے بڑھ رہے ہیں
لیکن آہستہ یہ بات انٹرویو کی جاری کردہ جھلکیوں میں دیکھی گئی جبکہ مکمل انٹرویو بدھ کے روز نشر کیا جائے گا.الجزیرہ کے مطابق عمران خان نے کہا کہ ہم نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان فوجی تصادم روکنے کی اپنی حتی الامکان کوششیں کیں جو کامیاب رہیں‘اس سے قبل پاکستان نے ماضی میں بھی 4 مرتبہ ثالثی کی کوشش کی ہے خاص کر 2016 کے آخر میں جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سعودی شیعہ عالم باقر النمر کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی ختم کرنے کے لیے تہران اور ریاض کا دورہ کیا تھا.سعودی عرب اور ایران حریف ممالک تصور کیے جاتے ہیں اور 2015 میں یمن جنگ کے بعدسے ان کے تعلقات میں سخت کشیدگی پیدا ہوگئی ہے بعد ازاں حوثی باغیوں کی جانب سے آرامکو آئل تنصیبات پر حملے کے بعد سے اس کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا تھا. چنانچہ گزشتہ برس ستمبر میں قوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ایک نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے یہ بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی درخواست پر وہ، ایران اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کررہے ہیںاس کے چند گھنٹوں بعد امریکی صدر نے بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پاکستانی رہنما سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور اسی وجہ نے انہیں ان کوششوں میں شامل کیا گیا.اس تناظر میں وزیراعظم 13 اکتوبر کو ایک روزہ دورے پر ایران پہنچے تھے جس کے دورن انہوں نے کہا تھا کہ ہم برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین تنازع نہیں چاہتے، تصادم
کی صورت میں خطے میں غربت اور تیل کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا اور اس کے پیچھے مفاد پرست خوب فائدہ اٹھائیں گے. بعدازاں 15 اکتوبر کو عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات میں ایران کے ساتھ تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں پر زور دیا تھارواں برس جنوری میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عہدیدار نے بتایا تھا کہ وزیراعظم عمران خان دنیا کے ان راہنما?ں میں سے ایک ہیں جو ایران اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کمی کے لیے آف ریمپ ڈپلومیسی میں مصروف عمل نظر
آئے.خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے وسط میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی صورت میں پابندیو میں نرمی پر مشتمل جوہری معاہدے کے بعد سے ایران اور امریکا کے تعلقات بہت زیادہ خراب ہوئے ہیںتاہم رواں برس جنوری میں عراق میں ایک ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو امریکا نے ایک فضائی حملے میں ہلاک کردیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی نے جنم لے لیا تھا.عمران خان نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے معاشی مفادات کی خاطر پاکستان کی ہر کسی قسم کی پرامن کوشش کو رد کیا‘ بھارت کے ساتھ تنازعات کو ختم
کرنے کے تمام ممکنہ راستے اختیار کرچکے ہیں تاہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے معاشی مفادات کی خاطر پاکستان کی ہر کسی قسم کی پرامن کوشش کو رد کیا.وزیراعظم نے کہا کہ نریندرمودی نے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بھارت سے اس کی سیکولرازم کی پہچان چھین لی، بھارت آر ایس ایس کے ہندو انتہا پسند نظریے کے زیر اثر ہے، آج کے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ وہی ہو رہا ہے جو ہٹلر کے دور میں یہودیوں کے ساتھ کیا گیا.انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعدوادی ایک اوپن ائیر جیل میں تبدیل ہے، ایک سال کے اندر اندر مقبوضہ جموں کشمیر کی معیشت تباہ ہوگئی ہے‘وزیراعظم عمران خان نے انٹرویو میں سعودی عرب اور ایران تنازع سے متعلق گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی ثالثی کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی کم ہوئی ہے جب کہ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوششیں ختم نہیں ہوئی ہیں، ہم بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں.