چوہدری انوار الحق کیخلاف عدم اعتماد

تحریر: انجینئر اصغرحیات

چوہدری انوار الحق کو وزیراعظم آزاد کشمیر کے منصب پر فائز ہوئے 20 اپریل کو ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ آزاد کشمیر کی تاریخ کی طویل ترین کابینہ ہونے کے باوجود ریاست میں ون مین شو ہے۔ عملاَ ون مین شو بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے ڈیرے کشمیر ہاوس اسلام آباد میں جما رکھے ہیں۔ وزراء بھی منتخب ہونے کے بعد پاکستان کے دورے پر ہی ہیں۔ ریاست میں ہو کا عالم ہے۔ محکمہ جنگلات کے ملازمین، سیکرٹریٹ ملازمین احتجاج پر ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے سیکرٹریٹ بند ہے۔ نظام مفلوج ہے۔

وزراء کی سب سے بڑی فوج ظفر موج رکھ لی۔ لیکن جناب وزیراعظم کابینہ کا اجلاس بلانے سے کتراتے ہیں۔ شائد اس خوف سے کہ کہیں بے زبان وزراء کو زبان نہ لگ جائے۔ ریاستی امور کے فیصلے یا تو جناب وزیراعظم تن تنہا کررہے ہیں یا پھر سرکولیشن کے ذریعے۔ چوہدری انوار الحق سپیکر تھے تو قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلا ناغہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔ قوم کے کروڑوں روپے اس بے مقصد اجلاس پر خرچ ہوئے۔ اب جناب وزیراعظم ہیں تو گیارہ ماہ میں صرف چند دن قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ اگر باقی مانندہ ایک ماہ مسلسل قانون ساز اسمبلی کا اجلاس جاری رہے تو بھی سال میں 60 دن اجلاس بلانے کی قانونی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت کو جھنڈی دینے کے باوجود وزیراعظم ان کی زباں بندی کے خواہاں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سچ گو زبانوں کے ڈر سے پارلیمان کی زبان بندی کردی گئی۔ زبانوں پر تالے ہیں۔ سوچ پر پہرے ہیں۔

نئی جماعت بنانے کی خواہش لیے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نجانے کب سے بیٹھے ہیں۔ کئی بار سرعام اعلان بھی کرچکے لیکن سیاسی جماعت بنائے نہیں بن پا رہی۔ وزیراعظم پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرنے سے گریزاں ہیں کہ کہیں میڈیا اور ریاست پر عیاں نہ ہوجائے کہ انہیں کتنے ممبران کی حمایت حاصل ہے۔ حمایت حاصل بھی ہے یا نہیں۔

جب کسی ریاست یا معاشرے میں سیاسی خلا پیدا ہوجائے تو سیاستدان اور قائدین ہی اس خلا کو پر کرتے نظر آتے ہیں۔ دو روز قبل مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر اور اب راجہ فاروق حیدر گن گرھ سنائی دی۔ راجہ صاحب کی یہ خوبی ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر بات کرنے کے عادی ہیں۔ اسی خامی نے انہیں پارٹی صدارت سے الگ کیا۔ لیکن وہ اپنے دبنگ اسٹائل کی وجہ سے عوامی حلقوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کیلئے ہوم ورک اور نمبرز گیم مکمل ہوچکی۔ میان نواز شریف اور آصف علی زرداری نئے وزیراعظم کے نام کا فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے ملازمین سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان سے بھی اپیل کی کہ پولیس بھجوا کر وزیراعظم چوہدری انوار الحق اور کابینہ اراکین کو کشمیر ہاوس سے نکالا جائے اور انہیں کوہالہ پار کیا جائے۔

اس سے قبل سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس بھی اعلان کرچکے کہ وزیراعظم چوہدری انوار الحق کی جلد چھٹی کروائی جائے گی۔ جب میں نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وہ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان سے آزاد کشمیر میں تبدیلی کیلئے کردار ادا کرنے کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آزاد کشمیر میں تبدیلی کیلئے مرکز کو زحمت نہیں دیں گے۔ یہ کام وہ خود سرانجام دیں گے۔ خبریں یہ بھی زیر گردش ہیں کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے کچھ اراکین اور کچھ وزراء سردار تنویر الیاس کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس معاملے میں وہ سرپرائز دے سکتے ہیں۔

مسلم لیگ ن پہلے ہی دن سے آزاد کشمیر میں اس حکومت کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں تھی۔ راجہ فاروق حیدر، چوہدری طارق فاروق، مشتاق منہاس سمیت کئی رہنما اس اتحاد کیخلاف تھے۔انہوں نے میاں نواز شریف سے بھی وزیراعظم کی تبدیلی کی بات کرلی تھی۔ لیکن پاکستان میں عام انتخابات کے باعث معاملے پر پیشرفت نہ ہوسکی۔ پیپلزپارٹی کو توقع کے مطابق بڑی وزارتیں نہ مل سکیں۔ ایک بلدیات کی تگڑی وزارت ملی لیکن جناب وزیراعظم نے اس کے بھی فنڈز روک دیئے۔ اب جب پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت وجود میں آچکی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں انوار سرکار کا بوجھ مزید اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ آزاد کشمیر میں ان ہاوس تبدیلی کیلئے ملاقاتوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس بھی اس میں حصہ ڈالنے کیلئے تیار ہیں۔ لگتا ہے پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات کے بعد آزاد کشمیر میں بھی ایک بار پھر حکومت کی تبدیلی ہونیوالی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں