بحران، چوہدری انوار اور آتش فشاں  ۔۔۔ تحریر: انجینئر اصغرحیات

پونچھ اور میرپور ڈویژن کے عوام نے کمال کردیا، تاریخ میں شائد آزاد ریاست کے لوگ اپنے حق کیلئے اس طرح نکلے ہوں جس طرح پانچ ستمبر کو میرپور اور پونچھ ڈویژن کے عوام نکلے،  باغ ، فارورڈ کہوٹہ، راولاکوٹ، پلندری، ہجیرہ ، کوٹلی ، بھمبر ، میرپور، ڈڈیال ہر جگہ مکمل شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتال تھی، سڑکوں پر ہو کا عالم تھا، بازاروں اور سڑکوں کوتالے لگے تھے،  ریڑھی  اور ڈھابے والوں نے بھی اپنا کاروبار بند رکھا، دیہاڑی دار طبقے نے بھی اپنی مزدوری کی قربانی دی۔  

پونچھ اور میرپور ڈویژن میں ہڑتال کے موقع پر عوام کے کچھ نمائندے عوام میں نظر آئے، آگرچہ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق 48 ووٹ لیکر وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے، لیکن عوام کی نبض پڑھنے والے سمجھ گئے کہ عوام کے اس مطالبہ پر ان کے ساتھ نکلنا کتنا ضروری ہے، حکومتی اتحادی جماعت ن لیگ سے مجھے فیصل آزاد عوام کے دمیان نظر آئے، راجہ یسین عوام کے اس مطالبے کے حق میں کھل کر سامنے آئے، افتخار ایوب احتجاج کی صف اول میں موجود رہے، ڈاکٹر خالد محمود اور دیگر رہنما عوام میں موجود رہے، وزیراعظم چوہدری انوار الحق 29 رکنی کابینہ بلکہ 35 فلیگ ہولڈرز کے ہمراہ وزیراعظم ہاوس میں چھپے بیٹھے رہے، آزاد کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنا کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟

عوام بجلی کے بلوں میں اضافے کیخلاف سراپا احتجاج ہیں، عوام آٹے کی عدم دستیابی پر نوحہ کناں ہیں، راولاکوٹ میں جاری دھرنے کو 115 دن سے زائد ہوگئے لیکن کوئی بھی قصہ غم سننے کیلئے تیار نہیں، جناب وزیراعظم کو خواب خرگوش سے جاگنے میں تاخیر ہوئی یا وہ جان بوجھ کر دیر سے جاگے یہ الگ بحث ہے، جب جناب وزیراعظم جاگے تو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے میں بھی دیر کردی، وزیراعظم خود چل کر عوام کے پاس جاتے ان کی بات سنتے، اگر یہ ممکن نہیں تھا اور اس سے وزیراعظم کی شان میں کوئی گستاخی ہورہی تھی تو وزراء کی کمیٹی مظاہرین کے پاس جاتی اور مسائل کے حل کیلئے مہلت مانگتی اور احتجاج ختم کرنے پر آمادہ کرتی تو شائد صورتحال کچھ اور ہوتی، لیکن ایسا نہ ہوسکا، کہیں انائیں آڑے آگئیں اور کہیں کرسی۔

وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے عوام کی مشکلات کا ادراک کرنے کے بجائے اس احتجاج کو پہلے ہی دن اپنی حکومت کیخلاف سازش قرار دیدیا، جوں جوں عوام کے اندر کی چنگاری لاوے کی شکل اختیار کرتی گئی، جناب وزیراعظم کے اقدامات میں بھی تیزی آتی گئی، کن اقدامات کی؟ وہ اقدامات جو اس لاوے کو آتش فشاں بنانے میں کاریگر ثابت ہوئی، نام نہاد سیاسی حکمت عملی سے مزاحمتی تحریک کو توڑنے کی کوشش کی گئی، جب اس میں ناکامی ہوئی تو سرکاری مشینری کے استمعال کے ذریعے دھمکانے کی کوشش کی گئی، بار کونسلز اور تاجر تنظیموں کو مقدمات کی دھکمی دی گئی، حال ہی میں سینئر صحافی عامر محبوب نے جو انکشافات کیے ہیں وہ رونگھٹے کھڑے کردینے والے ہیں کہ کس طرح پونچھ کے عوام اور پاک فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی

تقریبا ایک ہفتہ قبل وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے اپنے درجن بھر بے محکمہ وزراء کے ہمراہ پرہجوم پریس کانفرنس میں پونچھ پیکج کا اعلان کیا، قائرین شائد یہ سمجھ رہے ہوں کہ میں بے محکمہ کا لفظ طنزیہ استعمال کررہا ہوں، لہذا تصحیح کرتا چلوں کہ وزیراعظم کے ہمراہ ایک بامحکمہ وزیر، وزیر خزانہ کرنل ریٹائرڈ وقار نور بھی موجود تھے، غالب امکان یہ تھا کہ جناب وزیراعظم اس پریس کانفرنس میں بجلی کی قیمتوں میں کمی، کم از کم غریب صارفین کو ریلیف دینے اور آٹے کے بحران سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے لیکن وزیراعظم صاحب نے پونچھ ڈویژن کیلئے چار سینئر افسران کی تعیناتی کا اعلان کیا، جن میں چیف انجینئر شاہرات پونچھ ،چیف انجینئر برقیات پونچھ ،ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز پونچھ ،ڈویژنل ڈائریکٹر کالجز پونچھ ،چیف انجینئر عمارات / پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی آسامیاں شامل ہیں

وزیراعظم کے اعلان کردہ پونچھ پیکج سے عوام کو فوری طور پر کوئی ریلیف ملے گا؟ یا پھر عوام کو درپیش موجودہ مسائل جن کے باعث وہ احتجاج کررہے ہیں وہ حل ہونگے؟ شائد طویل مدت میں عوام کو اس اضافی افسر شاہی سے کچھ فائدہ مل سکے لیکن ابھی تو یہ افسران قومی خزانے پر مزید بوجھ ثابت ہونگے، گریڈ 20 کے افسران مفت گاڑیاں بھی استمعال کریں گے، فیول اور بجلی بھی استعمال کریں گے، سرکاری گھر اور نوکر چاکر بھی سرکار سے لیں گے، جب تک یہ عوام کو ڈیلیور کرنا شروع ہونگے، نجانے ایک بچہ کتنے کا مقروض ہوچکا ہوگا، اس سب کے باوجود سابق صدر حاجی یعقوب صاحب نہ صرف پریس کانفرنس میں وزیراعظم کے ساتھ تھے بلکہ اس پیکج کے بھی متعرف تھے، شائد وہ مستقبل قریب میں دوبارہ صدر بننے کا چانس مس نہیں کرنا چاہتے

وزیراعظم چوہدری انوار الحق سے پریس کانفرنس میں ناچیز نے سوال کیا کہ اگر کوٹے کا آٹا پورا مل رہا ہے تو آٹے کا بحران کیوں ہے؟ کیا یہ انتظامی فیلئیر نہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا آپ اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟ جناب وزیراعظم نے جواب میں لمبی چوڑی تقریر فرمائی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ایک بریگیڈ فوج بھی لگا دوں تو آٹے کی اسمگلنگ نہیں رک سکتی، تو جناب والا آپ اور آپ کے 29 ورزاء کی فوج اگر آٹے کی اسمگلنگ نہیں روک سکتی تو بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات کیوں لے رہے ہیں؟ جان چھوڑیں اور کسی اور کو موقع دیں، ایک صحافی نے سوال کیا کہ عوام مفت بجلی کا مطالبہ کررہے ہیں جواب میں جناب وزیراعظم نے فرمایا کہ مفت موت مل سکتی ہے لیکن بجلی مفت نہیں مل سکتی، سوشل میڈیا پر جناب وزیراعظم کا جواب اتنا ہٹ ہوا کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا ہر صارف اب تک دو چار بار وزیراعظم کی بلائیں لے چکا ہوگا

آزاد کشمیر کا بحران بڑھتا جارہا ہے اور آزاد خطے کی موجودہ حکومت اس پر قابو پانے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے، 48 ووٹ لیکر وزیراعظم ببنے والے چوہدری انوار الحق کی حکومت اندر سے خلفشار کا شکار ہے، وزارتوں کی تقسیم نہ ہونے اور دیگر معملات پر اتحادی وزیراعظم سے ناراض نظر آتے ہیں، چوہدری طارق فاروق کی لندن ملاقاتوں کے بعد ن لیگ سنجیدگی سے آزاد کشمیر حکومت سے علیحدگی کا سوچ رہی ہے، پیپلزپارٹی کے وزراء کی وزیراعظم کیساتھ ون آن ون جھڑپ ہوچکی ہے، مرضی کی وزارتیں نہ ملنے پر تحریک انصاف سے آنے والے فارورڈ بلاک اراکین وزیراعظم سے الگ ناراض ہیں، وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے سب سے بہت سے وعدے کیے لیکن وہ کچھ بھی پورا کرتے نظر نہیں آتے، اس سے پہلے کے بحران مزید بڑھے آزاد کشمیر کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اور مقتدر حلقوں کو اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں