بلدیاتی حکومتیں ۔۔۔ سردار تنویر الیاس بمقابلہ چوہدری انوار الحق

تحریرِ: انجینئر اصغرحیات ۔۔۔

آزاد کشمیر میں گزشتہ 32 سالوں میں 6 بار قانون ساز اسمبلی اپنی مدت پوری کرچکی، ان 32 سالوں میں نجانے کتنے وزرائے اعظم آئے اور گئے اور سب نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا اور خوب نعرے بھی لگائے، سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے وعدے وعید کرتی رہیں ، لیکن سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جو کہا وہ کرکے دکھایا، آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا نعرہ اتنی بارلگایا گیا کہ لوگوں کو یہ نعرہ جھوٹا لگنے لگا تھا۔ لوگ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو مذاق سمجھتے رہے۔  روز یہ پیش گوئی ہوتی تھی کہ بلدیاتی انتخابات آج ملتوی ہوئے کہ کل ہوئے، موسم سرما شروع ہوا تو تجزیہ نگاروں نے کہنا شروع کردیا کہ اب ان سردیوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ بات مارچ اپریل تک چلی گئی ہے۔ ایک بار بلدیاتی انتخابات چند ماہ کیلئے الیکشن ڈیلے ہوئے تو پھر دوبارہ نہ ہوئے اور ماضی میں یہ ہوتا بھی رہا۔ ماضی کی حکومتیں کئی بہانے بنا کر الیکشن ملتوی کرتیں۔ کبھی فنڈز کا بہانہ بنا کر اور کبھی سیکورٹی کا بہانہ بنا کراور کچھ نہ ملتا تو موسم کی سختی کا بہانہ بنا کر، 31 سال اسی چکر میں گزر گئے۔ جو بچے تھے جوان ہوگئے اور جو جوان تھے بوڑھے ہوگئے اور کچھ تو اللہ کو پیارے بھی ہوگئے ہیں۔ سال 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے نہ صرف بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے فنڈز مختص کیے بلکہ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر فنڈز کا اجرا بھی کردیا۔ اب الیکشن کمیشن کے پاس بھی بلدیاتی اتنخابات ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں رہا تھا۔ انتخابات کیلئے سیکورٹی کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ وفاقی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے سیکورٹی فورسز کی نفری دینے سے انکار کردیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پنجاب اور کے پی پولیس کی نگرانی میں الیکشن لڑنے سے انکاری ہوگئیں۔ اپوزیشن کے علاوہ اس وقت کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کو اپنی ہی جماعت میں بھی مزاحمت کا سامنا رہا۔ اس وقت کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے بھی کچھ اراکین اسمبلی حتی کہ وزرا نہیں چاہتے تھے کہ بلدیاتی الیکشن ہوں۔ کیونکہ بلدیاتی انتخابات سے ممبران اسمبلی اختیارات کم ہوجاتے ہیں۔ کچھ وزرائے حکومت کا خیال تھا کہ اگر بلدیاتی انتخابات ہوئے تو اختیارات ممبران اسمبلی اور ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے، ایک دو اراکین اور وزرا سے ہماری بھی بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ اگر ترقیاتی فنڈز وارڈز کی سطح پر تقسیم ہوئے تو کونسلرز کو ترقیاتی فنڈز ملنے سے ایم ایل ایز بے اختیار ہوجائیں گے اور چیئرمین ضلع کونسل اور چیئرمین یونین کونسل ممبران اسمبلی سے زیارہ اختیارات کا حامل ہوگا۔ کچھ وزرا کا خیال تھا کہ وزرائے حکومت سے زیادہ بااختیار چیئرمین ضلع کونسل ہوگا۔ وزراء بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔ وافقان حال کے مطابق کارنرمیٹینگز بھی ہوتی رہیں۔ وزرئے حکومت اپوزیشن ارکان کے ساتھ بیٹھتے اور انہیں شے دیتے رہے کہ وہ اس سیکورٹی میں انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اسی نظریے کو لیکر ماضی میں ممبران اسمبلی اور وزرا نے بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کی، سابقہ دور میں وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے جب بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تو کابینہ کی اکثریت نے استعفے وزیراعظم کو پیش کیے۔ جس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر عدالت سے مہلت پر مہلت لی جاتی رہی اور معاملہ عام انتخابات کے قریب آگیا تو فاروق حیدر نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے۔  سال 2022 میں وفاق نے بلدیاتی انتخابت کے انعقاد کیلئے آزاد کشمیر کو سیکورٹی دینے سے انکار کردیا لیکن اس وقت کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس الیکشن بروقت کروانے پر ڈٹے رہے۔ الیکشن کمیشن نے امن کمیٹیاں بنا کر انتخابات کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے نہ صرف ان کمیٹیوں کو مسترد کیا بلکہ ان کے ذریعے ہونیوالے انتخابات سے بائیکاٹ پر بھی سنجیدگی سے غور و خوص کیا۔ پھر شائد کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ جمہوری عمل کا حصہ بنیں اور میدان خالی نہ چھوڑیں جس کے بعد اپوزیشن نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم سردار تنویرالیاس نے آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزاد کشمیر کی مقامی سیکورٹی سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ تین مراحل میں آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوا۔ تینوں مراحل انتہائی پرامن رہے۔ یہ یقینا اس وقت کی حکومت کی ایک بڑی کامیابی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں آزاد کشمیر کے ووٹرز کا بھی کردار تھا۔ آزاد کشمیر کے لوگوں نے ثابت کیا کہ وہ جمہوریت پسند ہیں۔ میں پونچھ ڈویژن کی پولنگ کے دوران باغ میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے گیا۔ وہاں انتخابی گہما گہمی دیکھ کر دل خوش ہوا۔ پہلی بار گاوں کی سطح پر لوگوں کو سیاست میں اتنا متحرک دیکھا۔ سب بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر سردار تنویر الیاس کو خراج تحسین پیش کررہے تھے۔ قوم پرست جماعتوں کے کارکنان سے لیکر سب سیاسی کارکنان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد معمولی بات نہیں۔ سردار تنویر الیاس ایک غیر روایتی سیاستدان ہیں اور ایک غیر روایتی سیاستدان ہی عوام کے حقوق حقیقی معنوں میں نچلی تک منتقلی کو عملی جامعہ پہننا سکتا ہے۔

سردار تنویر الیاس نے بلدیاتی اتنخابات کا وعدہ پورا کردیا۔ اس کے بعد وہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کیلئے کام کررہے تھے۔ مجھے یاد ہے سردار تنویرالیاس نے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں بلدیاتی نمائندوں کو مدعو کررکھا تھا۔ پھر ایک عدالتی فیصلے کے بعد انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد کئی جماعتوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ جس کا وزیراعظم چوہدری انوار الحق کو چنا گیا۔ جس نے وزیراعظم بن کر کہا کہ بلدیاتی اداوں کو فنڈز دیدیں تو ہم کیا ریڑھی لگائیں۔ جناب وزیراعظم نے بلدیاتی اداروں کے فنڈز ممبران اسمبلی میں تقسیم کرنے کا بھی فیصلہ کیا لیکن عدالت نے روک دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ 35 سے زائد وزیر و مشیر ہیں۔ پی ڈی اے اور ایم ڈی اے کے بھی وزیر لگنا شروع ہوئے گئے ہیں۔ اصل اختیارات وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے اپنے پاس ہیں۔ ایک طاقتور ویزاعظم اور اس کی کابینہ میں چھوٹے چھوٹے محکمے رکھنے والے وزیر کہاں چاہیں گے کہ ان کے اختیارات میں کمی ہو ااور بلدیاتی نمائندے بااختیار ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں