ایک لفظ ہے جو اکثر میری زبان پر آجاتاہے ‘ کراچی سب کا ہے مگر کراچی کا کوئی نہیں ہے ‘ یہ وہ وقت ہوتاہے جب شہر قائدکی سڑکوں اور شاہراہوں کا منظر نامہ میری نگاہوں سے گزرتاہے ایسا لگتاہے کہ شاید اس شہر کوبری بلائوں اور آفتوں نے گھیر رکھاہے ایسی آفتیں جو اس شہر کے باسیوں کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لینا چاہتی ہیں جو اس شہر کی روشنیوں کی بدترین دشمن ہیں،وفاقی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان سندھ کی تباہی حالی پر شدید تشویش رکھتے ہیں مگر وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ صوبائی حکومت خود ہی اپنی زمہ داریوں کا احساس کرلے تو زیادہ بہتر ہوگا جبکہ مشترکہ مفادات کونسل
،اقتصادی رابطہ کمیٹی ،وزرات بین الاصوبائی رابطہ سمیت متعدد ایسے راستے ہیں کہ جن پر چلتے ہوئے باہمی طوپر سندھ کے مسائل حل کیئے جاسکتے ہیں،مگر اس کے لیے سندھ حکومت کی سنجیدگی کا نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے اور وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں مداخلت کو گریز کرتے ہوئے اندرون سندھ اور کراچی کو ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہے مگر سندھ حکومت اور شہر قائدکے مختلف اداروں میں بیٹھی یہ بلائیں جنھیں شاید عوام کا خون پیتے ہوئے کسی قسم کا خوف نہیں آتا ان تمام باتوں کی پرواکیئے بغیر لوٹ مار میں مصروف عمل ہیں،ان تمام نامراد اور بے رحم لوگوں کے لیے نہایت ہی معتبر جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے ریماکس نے جس انداز میں شہر قائد کے عوام کی ترجمانی کی ہے اسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گاچیف جسٹس صاحب نے کہاکہ پچھلے 20سالوں میں اس شہر کے لیے کچھ نہیں کیاگیا ،کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں جو آتا ہے جیب بھر کے چلا جاتاہے ۔سندھ حکومت کام کررہی ہے اور نہ ہی لوکل باڈی جبکہ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ سندھ حکومت کی ناکامی کے نتائج بہت خطرناک ہونگے ،یہ کراچی کی مکمل تباہی ہے اور سندھ حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے سندھ کے حکمران انجوائے کررہے ہیں ،یہ کیسی حکمرانی ہے کہ ہیلی کاپٹر کے دوچکر لگاکربیٹھ جائیں، یقینی طورپر چیف جسٹس صاحب نے وہ ہی کہا جو انہوں نے دیکھا اور محسوس کیا ان کی نظرسے یقینی طورپر ہسپتالوں کی لاچارگی والی صورتحال اور کتوں کے ہاتھوں بھنبھوٹی ہوئی بچوں کی لاشیں گزری ہونگی ،بس اب کون ہمارے چیف جسٹس صاحب کو بتائے کہ اس سندھ حکومت کے پاس تو ضمیر اور حیا
نام کی تو کوئی چیز ہی نہیں ہے ،جبکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ انہوں نے کراچی میں بجلی تقسیم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کے لیے بھی تاریخی ریماکس دیئے کیونکہ کے الیکٹرک اس وقت حقیقی معنوں میں قاتل الیکٹرک بن چکاہے جو شاید کسی کی نہیں سنتا جسے شاید غریبوں کی زندگیوں کا کوئی احساس نہیں ہے بلکل سندھ حکومت کی طرح ،چیف جسٹس آف پاکستان نے کے الیکٹرک پر بھی برہمی کااظہار کیا اور کہاکہ کے الیکٹرک والے کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے بعد خود کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے عوام کی بہت بڑی خدمت کررہے ہو،انہوں نے حالیہ بارشوں میں کرنٹ سے ہونے والی اموات پر بھی
افسوس کا اظہارکیا اور کہاکہ کے الیکٹرک کی لاپرواہیوں پر سی ای او کے خلاف کرنٹ سے لگنے والی ان ہلاکتوں پرمقدمہ بننا چاہیے اوراس سلسلے میں کے الیکٹرک کی انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنا ہوگا۔ قائرین کرام میں سمجھتاہوں کہ اس سلسلے میں مجھ سمیت اس شہر کا ہر فرد چیف جسٹس آف پاکستان کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے کراچی سے ہمدردی کا اس قدر اچھے انداز میں اظہارکیا۔ جبکہ دوسری جانب میں سمجھتاہوں کہ سندھ میں کراچی ایک واحد ایسا مقام ہے جو پیپلزپارٹی کے لوگوں کو ووٹ نہیں دیتاایک دو سیٹوں کے علاوہ پوراکراچی پیپلزپارٹی کی چیرہ دستیوں کی کہانیوں سے واقف ہے ،
اور اس کے بعد یہ لوگ سندھ بھر میں جوڑ توڑ کرکے اپنے مخصوص انداز میں حکومت تو بنالیتے ہیں مگر اس کے بعد پھر کراچی والوں سے گن گن کر ووٹ نہ دینے کا بدلہ لیا جاتاہے ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سندھ میں دادو نواب شاہ لاڑلانہ شکار پور اور میرپور خاص جیسے 23اضلاع میں سبھی جگہوں سے تو یہ سیٹیں نکال لیتے ہیں مگر یہ تو ان لوگوں کے بھی نہ ہوسکے ہیں جو انہیں ووٹ دیتے ہیں،سندھ میں جو تباہ حالی کے مناظر ہے اس میں چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریماکس میں ایک نقشہ کھینچا ہے مگر یہ تو غیرت مندوں کے تقاضے ہیں بھلا ڈوب کر تو وہ مریگا جس میں تھوڑی سی بھی شرم باقی
ہو،سندھ کے کونے کونے میں موجود ہر ایک شہری مکمل طورپر بنیادی سہولیات سے محروم ہے ، سندھ میں تباہی کی داستان اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ سندھ حکومت کی مسلسل عدم توجہی کی وجہ سے کھنڈر بن چکاہے ،اور یہ ہی نہیں ان ظالم حکمرانوں نے کراچی جیسے دنیا کے عظیم ترین شہر کو بھی کوڑے اور کچرے کا ڈھیر بنادیاہے ،یہاں کے اسکول اور ہسپتال مکمل طورپر تباہ اور کسی مرض کی دوانہیں ہیں ،یہاںکے روڑ راستے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں،تحریک انصاف اس وقت مرکز میں حکومت بناکر بیٹھی ہے جبکہ کراچی میں بھی اسے واضح برتری حاصل ہوئی ہے چونکہ تحریک
انصاف کراچی کے شہریوں کے لیے ایک نئی جماعت اور ایک نئے جذبے کے طور پر سامنے آئی ہے اس لیے شہر قائد کی عوام کی توقعات کا سلسلہ اس جماعت پر ابھی قائم ہے اور اس جماعت کی آزمائشوں کا سلسلہ ابھی شروع ہواہے ۔ جب ہم کراچی کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہاں پر جہاں ہرشخص بنیادی مسائل کا رونا رورہاہے یہاںہر کوئی لوٹ مار میں لگاہواہے یعنی اپنا کھاتاپورا کرلواور باقی اسے ایسے ہی تنہا چھوڑ دو یہ ایک اچھی شہریت کے جزبے کے فقدان کاواضح ثبوت ہے یہاں ایک عجیب افراتفری کا عالم ہے ۔ بجلی کا بحران ، پانی کا بحران ، آلودگی اور ناجائز تجاوزات، آخرکراچی کا انتظام چلانا اتنامشکل کیوں ہے،؟ کیا یہ سب سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے ممکن ہواہے یا کچھ اور بھی وجوہات ہیں ؟۔کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کے بڑے بڑے شہر جس میں لندن،ٹوکیو،بیجنگ ،میکسیکوسٹی او ر بھارت کا ممبئی کے ہم پلہ مانا جاتاہے، ایک تاریخی حقیقت کے مطابق ان تمام بڑے دنیا کے بیشتر بڑے شہروں کا نظام کثیر اور تمام اختیارات کے حامل خود مختار ادارے چلاتے ہیں جیسے کہ سٹی آف لندن کارپوریشن یو کے، سٹی آف نیویارک امریکہ ، اور ٹوکیو میٹروپولیٹن گورنمنٹ جاپان، اس ہی طرح کراچی کا نظام کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یا بلدیہ عظمی کراچی کے پاس ہے ،یہ تمام باتیں عوام کی معلومات تک تو ٹھیک ہیں مگر عملی طورپر شاید ان باتوں کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا، دنیا یہ تو جانتی ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور کاروباری شہر ہے یہاں کے لوگ بے شمار پیشوں اور کاروبار سے منسلک رہتے ہیں ،یہاں لاکھوں افرادسرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اپنی روٹی روزی کا زریعہ لگائے بیٹھے ہیں مگر اس کے باوجود یہ تمام لوگ جن میں ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جو روزگار سے مکمل طورپر آزاد ہیں یعنی جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں یہ سب لوگ یہاں پانی ،بجلی اور دیگر صفائی ستھرائی کی نعمتوں کے حوالے سے یکساں ہی پریشان حال دکھائی دیتے ہیں ہر ایک ان بنیادی سہولیات سے محروم دکھائی دیتاہے ۔اور افسوس کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام شہری مسائل کو اچھال کر بعض سیاسی جماعتیں ووٹ تو لے لیتی ہیں مگر بعد میں کراچی اور اس کے شہریوں کو نظر اندازکردیاجاتاہے ،بنیادی وجہ پھر یہ ہی ہے کہ کراچی سب کا ہے مگر کراچی کا کوئی نہیں ہے مگر چیف جسٹس آف پاکستان کے ریماکس کے بعد ایک حوصلہ ضرور ہواہے کہ سپریم کورٹ جو پاکستان کا ایک نہایت ہی قابل احترام ادارہ ہے اس کے سربراہ نے پورے سندھ میں تباہی حالی کا نوٹس لیا اور اپنی رائے کااظہار کیا اور یقینی طوپر وہ ہی کہاجو انہیں دیکھا اور محسوس کیا امید ہے کہ کراچی کے سیاسی دشمنوں کو یہ بات اب سمجھ میں آچکی ہے کہ اس شہر کے والی وارث ابھی موجود ہیں لہذا اس وقت میرے پاس جو اس تحریر کے بعد آخری الفاظ بچے ہیں وہ یہ ہے کہ شکریہ چیف جسٹس آف پاکستان۔