سانحہ کربلا 10 محرم 61 ہجری کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا، جس میں نواسہ رسول، امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی سربلندی کیلئے لازوال اور بے مثال قربانی پیش کی۔کربلا کے میدان میں ہونے والی حق و باطل کی جنگ میں ایسے بہت سے واقعات پیش آئے جو ناصرف اسلامی تاریخ بلکہ انسانی تاریخ میں بھی لازوال ہیں۔ انہیں واقعات میں سے 7 حقائق ایسے ہیں جو ہر مسلمان کو پتا ہونے چاہیے۔امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام کوفہ والوں کے خط:اہل کوفہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ امام حسینؓ نے
یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے تو کوفہ کے کچھ افراد سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور آپؓ کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آپؓ فوراً کوفہ تشریف لے آئیں، ہم سب آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں گے۔ اِس کے دو دن بعد ان لوگوں نے اسی مضمون کا ایک خط امام حسینؓ کی طرف لکھا اور چند دوسرے خطوط بھی آپؓ کے پاس بھیجے، جن میں آپؓ کو کوفہ بلایا گیا۔سانحہ کربلا کے پہلے شہید:امام حسینؓ کے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ سانحہ کربلا کے پہلے شہید ہیں، جنہیں کوفہ میں شہید کیا گیا۔ امام حسینؓ نے اہل کوفہ کے خط ملنے کے بعد مسلم بن عقیلؓ کو اپنا سفیر بنا کر کوفہ روانہ کیا تھا تاکہ وہ کوفہ کے حالات کا جائزہ لے کر امام حسینؓ کو آگاہ کر سکیں۔امام حسینؓ کے ساتھ کوئی فوج نہیں تھی:امام حسینؓ نے جب مکہ سے کوفہ کی جانب سفر شروع کیا تو آپؓ کے ساتھ اپنے خاندان کے کچھ افراد جن میں بچے بھی شامل تھے اور چند اصحاب تھے۔ امام حسینؓ کا کوفہ کی جانب سفر اہل کوفہ کی دعوت پر تھا اور آپؓ کا یزیدی فوج سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔فرزدق شاعر سے ملاقات:وادی تنعـیم سے سفر کر کے جب امام حسینؓ کا قافلہ وادی صفـاح پر پہنچا تو مشہور شاعر فرزدق آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام حسینؓ نے فرزدق شاعر سے پوچھا کہ کوفہ اور کوفہ والوں کی کچھ خبر ہے تو مجھے دو؟ جس پر شاعر نے کہا کہ کوفیوں کے دل آپؓ کے ساتھ ہیں اور ان کی تلوریں یزید کے ساتھ ہیں۔کربلا کی زمین کی خریداری:امام حسینؓ کا قافلہ جب میدان کربلا میں پہنچا تو آپؓ نے سب سے پہلے اس علاقے میں آباد بنی اسد کے قبیلے کے سرکردہ افراد کو
بلا کر ان سے زمین کربلا خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ امام حسینؓ نے زمین کربلا ساٹھ درہم میں خریدی۔ زمین کربلا کی خریداری یہ ثابت کرتی ہے کہ امام حسینؓ کسی کی غاصب زمین پر دفن ہونا نہیں چاہتے تھے۔حُر کی لشکر حسینی میں شمولیت:حر بن یزید ریاحی کوفہ کے ایک بہادر اور دلیر سپہ سالار تھے۔ جب کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو یہ خبر ملی کہ امام حسینؓ عراق پہنچ چکے ہیں تو اس نے حُر کو ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل لشکر کے ساتھ امام عالیٰ مقام کے راستے میں بھیج دیا تاکہ آپ کا راستہ روکیں۔ صبح عاشور حُر نے جب یہ دیکھا کہ یزیدی فوج امام حسینؓ کو قتل کرنے کے درپے ہے،
تو وہ یزیدی لشکر سے نکل کر لشکر حسینی میں شامل ہو گیا اور شجاعت و بہادری سے لڑتے ہوئے امام عالیٰ مقام کے مشن پر اپنی جان نچھاور کر دی۔میدان کربلا کے آخری شہید:میدان کربلا میں امام حسینؓ کے تمام ساتھی یزیدی لشکر سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تو آپؓ گھوڑے پر سوار ہو کر یزیدی لشکر سے ٹکرائے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی اور پھر قبیلہ کندہ کا ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے امام حسینؓ کے سر مبارک پر حملہ کر دیا جس سے آپؓ شدید زخمی ہو گئے اور سواری سے زمین پر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد شمر ذی الجوشن اپنے دس آدمی ساتھ لے کر آپؓ کی طرف بڑھا اور آپؓ کا سر اقدس تن سے جدا کردیا۔ امام حسینؓ نے جام شہادت نوش فرما لیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون:امام حسین کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیا کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔