قوموں کے عروج میں تشکیل سے کہیں زیادہ مشکل مرحلہ تعمیر کا ہوتا ہے کیونکہ تمدنی وثقافتی ترقی میں اصل امتحان قومی تعمیر کی ترقی وفلاح میں ہی مضمر ہوتا ہے۔اسی تعمیر میں ایسے چہرے بے نقاب ہو تے ہیں جنہوں نے سیاسی مکرو فریب کے نقاب اوڑھے ہوتے ہیں۔یہی وہ مکروہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں قائد اعظم نے پاکستان کے آغاز میں ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے معلوم ہیں میرے ساتھ کچھ کھوٹے سکے بھی ہیں،شائد یہی کھوٹے سکے بھٹو کے دور تک اور اب بھی کسی نہ کسی طور پاکستان میں موجود ہیں کہ بھٹو جیسے زیرک آدمی کو بھی اپنی ایک تقریر میں عندیہ دینا پڑا کہ مجھے معلوم
ہے کہ میری پارٹی میں کچھ کھوٹے سکے بھی ہیں جنہیں میں اپنے پائوں کی ٹھوکر سے نکال باہر پھینکوں گا۔لیکن شومئی قسمت کہ بھٹو کو ہی کچھ سازشی عناصر نے پارٹی کیا دنیا سے ہی رخصت کروا دیا۔خیر میں عرض کر رہا تھا کہ تعمیراصل امتحان ہوتا ہے کہ جس میں انتہائی احتیاط سے ہر اینٹ ایسی جوڑی جاتی ہے کہ دیوار میں کسی قسم کی کجی پیدا نہ ہو نے پائے کیونکہ جب دیوار کی بنیاد میں خشتِ اول ٹیڑھی رکھ دی جائے تووہ دیوار تا ثریا بھی ٹیڑھی ہی جائے گی۔ خشت اول چو ں نہد معمار کج ..تا ثریا می رود دیوار کج پاکستان 1947 میں جب معرض وجود میں آگیا تو قائد اعظم کو سب سے زیادہ پریشانی اس کے نظام اور اسے چلانے والوں کی تھی۔اگرچہ وہ اس بات کا اعادہ اپنے کئی انٹرویوز اور معروف شخصیات کے روبرو فرما چکے تھے،جیسے کہ ایک بار کسی صحافی نے پوچھا کہ آپ ملک میں کون سا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے دو ٹوک جواب دیا کہ اسلامی اصولوں پر مبنی نظام۔اسی طرح سردار شوکت حیات کہتے ہیں کہ میں نے جناح صاحب کو الفاروق(شبلی نعمانی )کا انگریزی ترجمہ پیش کیا تو چند دن بعد مجھے کہنے لگے کہ اس کی دوسری جلد بھی مہیا کی جائے،جب الفاروق پڑھ چکے تو فرمانے لگے کہ ’’فلاحی مملکت کا تصور تو بارہ سو سال قبل عمر فاروق ؓ نے دیا تھا،مسلمانوں کے ملک میں ایسا ہی نظام ہونا چاہئے۔لیکن صد افسوس کہ ہمیں یہ سوچنے میں ایک عشرہ لگا کہ ملک میں کون سا نظام عمل درآمد کیا جائے کہ جس سے ملکی ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔میری سمجھ میں یہ بات کبھی بھی نہیں آئی بلکہ بطور ایک لیکچرار جب کسی طالب علم نے سوال کیا تو میں
ہمیشہ کف افسوس ہی ملتا رہا کہ جب ہم نے پاکستان کو اس نعرہ کے ساتھ حاصل کیا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟لاالہ الااللہ تو پھر نظام کی عملداری کے لئے دس سال کیا سوچتے رہے؟بلا شبہ یہ ایسا سوال ہے جو ہر ذی فہم کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے لیکن کیا کریں جس قوم نے اپنا ملک اتنی قربانیوں کے بعدحاصل کیا ہو اگر وہی قوم کسی ایک مرکز سے ہٹ جائے تو نظام کیا ایسی قوم کے لئے ایک گھر کا نظام چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ابتدائی دس سال ہم یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ ہمارا آئین کس قسم کا ہونا چاہئے،جبکہ قرآن حمید کی صورت میں ملک کے پاس مکمل آئین اور ضابطہ حیات موجود تھا۔
1958 میں جب آئین تشکیل پا گیا تو اس کا عرصہ حیات صرف اڑھائی برس پر محیط رہا اور اس کے بعد ملک میں ایک ایسا مارشل لا لگا جس نے آنے والے تین اور مارشل لا کے در کھول دئے،اور دنیا جانتی ہے کہ مارشل لا میں تو وہی آئین ہوتا ہے جسے مارشل چاہتا ہے۔یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کو روز اول سے ہی تین قسم کی اشرافیہ کا سامنا رہا ۔مقام افسوس کہ اب بھی یہی تثلیث ہم پر کسی نہ کسی طور حکمرانہ کر رہی ہے۔ایک انگریز اشرافیہ کا نظام جو وراثت میں ملا دوسرا افسر شاہی جو اسی انگریز کا بغل بچہ اور تیسرا طبقہ جو کسی نا ہوا وہ ہے سیاسی اشرافیہ۔ان تینوں اقسام کو عوام پر
حکمرانی کرنا ہے ،اپنے مفادات کے لئے یا تینوں کو مشترک رہ کر مشترکہ مفاد کے لئے۔اسی لئے ایسے طبقات نے ملک کو کئی طبقات میں تقسیم کردیا تاکہ ان کی حکومت قائم رہ سکے۔اور پھر اپنی حکومت کے استحکام کے لئے عوام الناس کا اس طرح سے استحصال کیا کہ انہیں تربیت،تعلیم،روزگاروغیرہ سے دور رکھ کر صوبائی،نسلی،لسانی تعصبات کے ایسے کورکھ دھندوں میں الجھا دیا کہ سرا تلاش کرتے کرتے ان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔سیاسی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک لیڈر کی کہنے پر عوام سڑکوں پر ٹریفک جام،سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ،اپنوں کا گلا کاٹنے اور اپنی زندگی تک کو دائو پہ
لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کے بعد ان کی اولاد کا کیا بنے گا،گویا غلام ابن غلام پیدا کئے جا رہے ہیں۔جب ایسی صورت حال ہو گی تو پھر عوام تو یہی کہے گی نا کہ پھر کیا ہوا کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔دودھ میں پانی ڈالنے والا گوالا حکومت وقت پر تنقید کرتا دکھائی دے گا کہ تہتر سالوں میں ہمیں صاف پانی مہیا نہیں گیا۔سرخ مرچوں میں اینٹوں کا پائوڈر ملانے والا ملک میں ملاوٹ کے خلاف حکومت کو برا بھلا کہتا وا ملے گا۔سڑکوں کی تعمیر میں گھپلے کرنے والا حاجی صاحب اشیا کے خالص نہ ملنے پر حکومت وقت پر سیخ پا دکھائی دے گا۔سرکاری اداروں میں رشوت لینے والا کلرک
حکومت کی ناکامی کے قصے ہر آنے جانے والے کو سنائے گا۔اور تو اور مساجد کے حجروں میں ٹھنڈی مشینوں کے نیچے بیٹھنے والا مولانااور کسی آستانہ کا پیر اخلاقی و معاشی کرپشن کرنے کے بعد لوگوں کو آخرت سے ایسے ڈراتے ہوئے ملے گا جیسے وہ جنت کا سودا کر کے آیا ہو۔یہ ہے وہ تربیت جسے پاکستان بننے کے بعد ہمارے لیڈران نے کی۔صرف اس لئے کہ اگر انہیں روٹی کی غلامی سے آزادی فراہم کر دی تو کہیں ہمارے ہی گلے کو نہ آجائیں۔لیکن یاد رکھو کہ اگر اپنے گھر کے شیروں کو مارو گے تو باہر کے کتے بھی آپ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ہماری بقا اسی میں ہے کہ جو جذبہ ،مقصد اور نصب العین ہمارے آبائواجداد نے پاکستان کی تشکیل کے لئے اختیار کیا تھا ہمیں بھی ان کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے پاکستان کی تعمیر کے لئے اپنانا ہے تاکہ کسی اور فیض کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ .یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر۔۔تھا جس کا انتظار یہ وہ سحر تو نہیں۔