بٹگرام: زلزلہ 2005 میں تباہ شدہ سکول کی ازسرنوع تعمیر میں 12 سال لگ گئے

بٹگرام(راجہ خرم زاہد) 8 اکتوبر 2005 کا دن پاکستان اور آزادکشمیر کی تاریخ کے بدترین دنوں میں سے ایک ہے جب قیامت خیز زلزلے نے ہر طرف قیامت صغری برپا کر دی۔ ہر طرف تباہی، انسانی جانوں، قیمتی املاک کا وہ نقصان ہوا جس کے انمٹ نقوش آج بھی موجود ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اسکولز کی عمارتیں زمین بوس ہو گئیں، بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔ قیامت خیز زلزلے کو گزرے اب 15 سال مکمل ہو چکے ہیں کہ لیکن تا حال تعمیر نو کا کام ابھی مکمل نہیں ہو سکا۔خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام کی یونین کونسل راج بہاری گائوں کولے کا واحد گورنمنٹ پرائمری اسکول

زلزلے کی ایک دہائی کے بعد بھی حکام کی توجہ کا منتظر رہا اور جب کچھ نہ بن سکا تو مقامی افراد نے اپنے حق کی آواز ذمہ داران تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ اسکول کی عمارت نہ ہونے کے باعث کئی بچوں نے تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دی تھی کیونکہ اس کے علاوہ گائوں میں کوئی اسکول موجود نہ تھا۔ 2010 میں اسکول کی دوبارہ تعمیر کا آغازکیا گیا مگر پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جا سکا حالانکہ خیبرپختونخواہ حکومت نے زلزلے سے متاثرہ ایسے 760 اسکولز کے لیے 8 ارب روپے مختص کیے لیکن یہ مختص فنڈز جاری نہ ہو سکے اور کاغذات کی حد تک ہی رہے۔ 2017 تک اسکول اسی حالت میں رہا اور پھر عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت اسکول کو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ایرا نے بھی مقامی افراد کی مدد کی۔ مقامی افراد کی جانب سے اسکول کی تعمیر کے لیے فنڈنگ کی گئی جس کے بعد سکول کی تعمیر 2018 میں مکمل ہوئی اور آج اس اسکول میں 152 بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ اس اسکول سمیت سینکڑوں اسکولز ایسے ہیں جو زلزلے کے 15 سال بعد بھی حکام کی توج کے منتظر ہیں۔ اور اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مختص کیے گئے 8 ارب روپے میں سے جون 2018 تک صرف 1.37 ارب روپے ہی خرچ ہو پائے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں