سخاوت ایک شیخ کی ۔۔۔۔ تحریر: نعیم ثاقب

شیخ صاحب اندرون شہر کے پکے لاہوریے اور بڑے مزے کے زندہ دل انسان ہیں، بچپن اور پرانی یادوں کے عاشق ہیں اور ان پر بنی دلچسپ ویڈیوز ڈھونڈ ڈھانڈ کر بہت شئیر کرتے ہیں۔ان کا تعلق بھی یقینا اس آخری نسل سے ہے جنہوں نے پتنگیں اڑائیں، کینچے کھیلے، ٹی وی انٹینا سیدھے کیے، لوگوں کے گھروں کی گھنٹیاں بجائیں، اور وہ سب کام کیے جو شاید آج کے ڈیجیٹل دور کے بچے نہیں کر سکتے شاید اسی لیے زندگی کو قریب سے دیکھنے والے اس کی حقیقت اور انسانوں کی اصلیت کوسمجھنے کا ہنر جان لیتے ہیں۔ شیخ صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی۔ خندہ پیشانی کے ساتھ ہنستے مسکراتے صدقہ کرتے نظر آئے۔ جیسا کہ
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے“ ؎۔
اس بار شیخ صاحب آفس آئے تو میں ایک دو دوستوں کے کام کے لیے ادھر ادھر فون کر رہا تھا۔ کہنے لگے بھائی جان! کام اللہ کے لیے کرتے ہیں یا اپنے لیے۔ میں نے نہ سمجھنے کے انداز میں ان کی طرف دیکھا۔ مسکراتے ہوئے کہا ضرورت مند، غریب، حاجت مند اور ان لوگوں مدد کرنا جن کا حکم اللہ نے دیا ہے اللہ کے لیے کام کرنا ہے۔اپنے گھر والوں کی پرورش کے لیے محنت کرنا اپنے لیے کام کرنا ہے۔دنیا میں سب سے قیمتی چیز آپ کا وقت ہے جو آپ کسی کو دیتے ہیں مگر لوگ آپ کے اس دیئے ہوئے وقت کی قدر نہیں کرتے۔ کم ظرف اور مطلب پرست لوگوں پر زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں یہ آپ کی قدر کرنا تو دور کی بات الٹا آپ کو بیوقوف اور خود کو عقل مند ثابت کرتے ہیں۔ ان کی ذات سے کبھی کسی کو کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اگلے کا دل اور روح زخمی کردیتے ہیں۔ لوگوں کے جذبات ان کا ایندھن ہوتے ہیں۔
شیخ صاحب مگر ہم مطلب پرست اور کم ظرف لوگوں کو پہچانے کیسے؟ میں نے سوال کیا!شیخ مسکرائے اور کہنے لگے کم ظرف انسان کی پانچ نشانیاں ہیں

ان کےآس پاس اگر کوئی محنتی شخص کامیابی حاصل کرے اور خوش ہو تو یہ کبھی بھی ان کی خوشی میں خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کے دل میں حسد کی آگ جل اٹھتی ہے اور حاسد سے صرف آپ کو اللہ بچا سکتا ہے۔

یہ کبھی بھی خود کو غلط نہیں سمجھتے۔ یہ اپنی غلطی ماننے کے بجائے ہمیشہ دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔

کم ظرف انسان دلیل سے قائل کرنے کی بجائے ہمیشہ اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور ہمیشہ بحث جیتنا چاہتے ہیں یہ لوگ بنیادی طور پر مطلب پرست اور خود غرض ہوتے ہیں جو لوگوں کو انسان نہیں صرف ٹشو پیپر سمجھتے ہیں استعمال کرتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں۔ نبی محترم ﷺ نے جہاں اچھے لوگوں خوبیاں بیان کی ہیں وہیں برے لوگوں کی بھی پہچان بتائی ہے تاکہ ایسے لوگوں سے بچا جا سکے۔نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ”تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اسکے شرسے لوگ محفوظ ہوں۔“ (ترمذی،باب الفتن)۔

یہ لوگوں سے مدد اور فوائد حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، مگر جب ان سے مدد مانگی جائے تو یہ کبھی کسی کے کام نہیں آتے۔

ایسے لوگ بے معنی گپ شپ کرنے کے شوقین ہوتے ہیں اور ان کا موضوع گفتگو دوسرے افراد کی خامیاں اور ناکامیاں ہوتی ہیں۔

چھوٹا ظرف رکھنے والے لوگ اپنے اردگر افراد کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں اور اگر کوئی ان کی مرضی کے خلاف کچھ کرنا چاہے تو انہیں سخت ناگوار گزرتا ہے۔

بھائی جان آپ نے کامیاب ہونے ہے تو ایسے لوگوں کو زندگی سے نکال دیں۔ شیخ صاحب کہہ رہے تھے اور میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ لوگوں کو پرکھنے کا کا ہنر بتا کر شیخ ہونے کے باوجود بڑی سخاوت کر گئے ہیں۔ اور مجھے وہ حدیث یاد آرہی تھی کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھے دوست اور برے دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک اور لوہار کی بھٹی کی، مشک والے کے پاس جائے (یعنی عطار کے) تو فائدے سے خالی نہیں آتا یا تو مشک (یا عطر) خریدے یا خوشبو ہی سونگھتا رہے اور لوہار کی بھٹی یا تو تیرا بدن یا کپڑا جلاتی ہے یا تجھ کو بو سونگھاتی ہے۔

(بخاری، جلد اول کتاب البیوع حدیث نمبر:1972

اپنا تبصرہ بھیجیں