پاکستان متحدہ عرب امارات کو تسلیم کرنے والاپہلا ملک ہے

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے متحدہ عرب امارات کے فرمانروا سے بات کی جس کے بعد سے حالات نارمل ہونے لگے وگرنہ ان کی طرف سے دیے جانے والے قرض کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی تھی۔اس سے قبل بھی سعودی عرب نے قرض حسنہ کے طور پر جو تین ملین ڈالر دیے تھے وقت سے پہلے ہی واپسی کاتقاضا بھی کر ڈالا تھا جس پر ایک بلین ڈالر کی رقم ہم نے چین سے لے کر انہیں دے دی۔اب متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھی ایسا ہی کچھ تھا جس پرو زیراعظم عمران خان نے براہ راست ان سے بات کی اور معاملہ نارمل ہوا۔اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر

صحافی اور تجزیہ کار ہارون الرشید نے اپنے پروگرام میں کہا کہ اب برف پگھلنے لگی ہے اور حالات نارمل ہوتے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ہم نے عرب ممالک کو قرض یا پھر امداد دینے کی درخواست کی ہو۔ایسی بات نہیں ہے کہ وہ ہمیں امداد نہیں دیتے تھے دیتے تھے مگر اپنی مرضی سے ہم نے کبھی مانگی نہیں تھی۔انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار سعودی عرب نے ایک بلین ڈالر کا امدادی چیک ذوالفقار علی بھٹو کو دیا تھااس کا آج تک نہیں تا کہ وہ کہاں گیااور کدھر خرچ ہوا۔ہارون الرشید نے یہ بھی کہا کہ متحدہ عرب امارات کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک پاکستان تھا،پاکستان نے ہی ان کی ایئرلائن بنائی اور ان کے شہروں کو آباد کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا،یو اے ای،سعودیہ اور سوڈان کے بچوں کو تعلیم دی اور یہاں سے ڈاکٹر بھی جاتے تھے اور ان کے میڈیکل کے شعبے میں کام کرتے تھے اور آج کشمیر کے معاملے پر انہوں نے انڈیا کے ساتھ اپنے مراسم زیادہ مضبوط کر لیے ہیں۔گوادر کے معاملے پر بھی انہوں نے انڈیا کا ساتھ دیا جبکہ علیحدگی پسند بلوچوں کو انڈیا نے پناہ دی تو اس میں امریکہ کی ایما بھی شامل تھی کیونکہ امریکہ اور انڈیا سی پیک منصوبے کے خلاف ہیں۔انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہر حال یہ بات خوش آئند ہے کہ عمران خان نے خود یو اے ای کے فرمانروا سے بات کی اور معالات بہتری کی طرف جانے کی امید ہے لہٰذابرف اب پگھل رہی ہے۔واضح رہے کہ سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے 3

ارب ڈالرز کی امدادی رقم دی تھی تاہم تعلقات میں سرد مہری کے باعث سعودی عرب نے 2 ارب ڈالرز واپس مانگ لیے تھی جس پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آئل کی قیمتوں میں کمی کے باعث سعودی عرب نے رقم واپس مانگی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں جمی برف پگھلنے کے بعد اس بات کا بھی امکان ہے کہ شاید سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو تیل کی ادائیگیوں میں دیا جانے والا 3.2 بلین ڈالر کے ریلیف سے متعلق نظر ثانی کی جائی گی تاہم حکومتی عہدیدار نے اس حوالے سے بات چیت کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔واضح رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اپنی بقایا رقم مانگے جانے کے بعد پاکستان نے چین سے مدد مانگتے ہوئے سعودی عرب کو دینے کے لیے قرض کی رقم کا انتظام کرلیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں