سعودی عرب نے نصاب تعلیم سے ’صہیونی خطرہ ‘ نامی باب اور اسرائیل سے دُشمنی اور نفرت پر مبنی مواد نکال دیا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) دنیا بھر میں نصابی کتب اور ان میں شائع شدہ مواد پر نظر رکھنے والے ادارے ‘ریسرچ انسٹی ٹیوٹ امپیکٹ سی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے نصابی کتب برائے سن دو ہزار بیس اور اکیس میں پایا جانے والا نفرت انگیز مواد یا تو حذف کر دیا گیا ہے یا پھر اس میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے اعتدال کی طرف لایا جا چکا ہے۔DW اردو نے بتایا ہے کہ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی نصابی کتب میں ایک عرصے سے سامیت دشمنی پر مبنی مواد موجود تھا، جسے اب یا تو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے یا پھر الفاظ کی شدت کم کر دی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں ایک مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صیہونیت دشمنی پر مبنی وہ حصہ بھی نکال دیا گیا ہے، جس کے مطابق یہودی جوڑ توڑ کرتے ہوئے دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں تاکہ اپنے ‘مذموم عزائم‘ کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔اسی طرح اس حصے کو بھی ہٹا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جہاد اور شہادت کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ مثال کے طور پر”اللہ کی راہ میں جہاد اسلام کا عروج ہے“ کو بھی اب ختم کر دیا گیا ہے۔اسی طرح ‘صیہونی خطرہ‘ نامی وہ باب بھی مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے، جس میں مختلف موضوعات تھے اور یہ بھی شامل تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور اسے باقی رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔اس باب میں یہ بھی شامل تھا کہ اسرائیل مبینہ طور پر اپنا علاقہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک پھیلانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ایک اور پیراگراف جو اب حذف کر دیا گیا ہے، وہ ہم جنس پرستی سے متعلق تھا کہ ایسا کرنے والوں کی سزا موت ہے۔’ریسرچ انسٹی ٹیوٹ امپیکٹ سی‘ کی اس رپورٹ کے مطابق اسی طرح متعدد متنازعہ موضوعات کو بھی سعودی نصابی کتب سے ختم کر دیا گیا ہے لیکن کچھ ایسے موضوعات اب بھی نصاب کا حصہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو ابھی تک ایک مکمل طور پر جائز ریاست نہیں لکھا گیا اور صیہونیت کو اب بھی نسل پرستانہ سیاسی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار سولہ سے دو یزار انیس تک کی نصابی کتب میں نفرت انگیز مواد اب بھی موجود ہے لیکن ان کتابوں میں اعتدال پسندی لانے اور اصلاحات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

نصابی کتب میں اب بھی ہم جنس پرستی اور اسرائیل کے خلاف بیانات ملتے ہیں لیکن ان کی شدت کم کر دی گئی ہے۔امپیکٹ سی کے سربراہ مارکوس شیف کے مطابق، ”اگر سن دو ہزار دو، سن دو ہزار آٹھ اور سن دو ہزار انیس کی نصابی کتب کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سن دو ہزار بیس کی نصابی کتب کو جدید بنانے میں اعلیٰ اداروں کی کوششیں شامل ہیں۔“مارکوس شیف کے مطابق ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نصابی کتابوں میں یہ تبدیلیاں عارضی ہیں یا طویل المدتی۔ا ا / م م ( ریسرچ انسٹی ٹیوٹ امپیکٹ سی)

اپنا تبصرہ بھیجیں