لاہور(نیوز ڈیسک) لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی۔ لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کی آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست پر سماعت جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔ نیب کی جانب سے اسپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری جب کہ شہباز شریف اپنے وکلاء امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔شہبازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے مؤقف پیش کیا کہ
عبوری ضمانت کی سطح پر شہزاد اکبر کا بیان آج پھر ہیڈ لائنز میں ہے، اگر یہ ایسے لہجے میں بات کریں گے تو کیا تاثر جائے گا، معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے مگر مرزا شہزاد اکبر بیان بازی کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے ریفرنس دائر ہونے کے بعد چند سوالات فریم کئے ہیں۔ جسٹس سردار احمد نعیم نے استفسار کیا کہ کیا یہ پوائنٹ آپ نے لکھوایا ہوا ہے؟َ۔ جس پر اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں معاملہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا اسی وجہ سے یہ پوائنٹ نہیں لکھوا سکے، سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ نیب اپنی انا کی تسکین کیلئے گرفتاریاں کرتا ہے، ہم نے سپریم کورٹ کے آرڈرز کی مصدقہ کاپی کیلئے اپلائی کیا ہوا ہے اگر کچھ وقت دے دیا جائے۔شہبازشریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیئے کہ 16 دسمبر 2018 کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں شہباز شریف کا جسمانی ریمانڈ لینے کی کوشش کی گئی، نیب نے بدنیتی کی بنیاد پر شہباز شریف کی آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس گرفتاری نہیں ڈالی، عدالتی فیصلوں کے مطابق ایک ہی تھانے میں ایک سے زیادہ کیسز کے اندراج میں ملزم کی تمام کیسز میں گرفتاری ڈالی جانا لازمی ہے، جون 2020 کو شہباز شریف کو طلب کیا گیا مگر چیئرمین نیب نے 28 مئی 2020 کو ہی شہبازشریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے۔امجد پرویز نے کہا کہ شہباز شریف کو 6 جون کو طلب کرنے کا مقصد تھا کہ ان سے وضاحت لی جائے، نیب نے طے شدہ منصوبے کے تحت طلبی کے نوٹس جاری کئے اور اس سے قبل وارنٹ گرفتاری حاصل کر رکھے تھے، طلبی کے نوٹس کی تاریخ سے 4 سے 5 روز قبل وارنٹ گرفتاری جاری کرنا نیب کی بدنیتی
کو ظاہر کرتا ہے، اپوزیشن کی آواز دبانے کیلئے تاریخ غداری کی کیسز سے بھری پڑی ہے، 23 اکتوبر 2018ء سے کوئی رپورٹ موجود نہیں کہ شہباز شریف پراسکیوشن کے ثبوتوں کر ٹیمپر کیا ہو۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نیب پولیٹیکل انجینیرنگ کا ادارہ بن چکا ہے، شہباز شریف کو گرفتار کرنا اس لیے ضروری لگ رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں، خواجہ برادران، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال بھی اس طرح کے الزمات کا سامنا کر چکے ہیں، جب چالان پیش ہو جائے اور تفتیش مکمل ہوئے تو گرفتاری کا کوئی جواز نہیں، شہباز شریف کیخلاف اُسی طرح کا کیس ہے جیسا چودھری ظہور الٰہی اور
ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف قائم ہوا۔شہبازشریف روسٹر پر آگئے اور عدالت سے بات کرنے کی اجازت طلب کی، جس پر عدالت نے انہیں صفائی پیش کرنے کی اجازت دی۔ شہبازشریف نے عدالت میں ججز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جس رات ٹی وی پر خبر آئی کہ آج رات آخری فلائٹ جا رہی ہے تو میں اپنے لوگوں میں واپس آنا چاہتا تھا اور میں نے حکام کے سامنے خود سرنڈر کیا۔شہبازشریف نے کہا کہ نیب نے کہا کہ یہ بے نامی اثاثے میرے ہیں، اگر آپ اجازت دیں تو میں آپکو مکمل بریفنگ دے سکتا ہوں، مجھ پر بہت بھاری الزامات لگائے گئے، کہا گیا کہ میرے بچوں کے اثاثہ جات میرے ہیں،
اور کرپشن کے یہ الزامات بطور وزیر اعلی ہیں۔عدالت نے کہا کہ یہ درخواست آپ کی مرضی سے دائر ہوئی، آپ کے وکیل آپ کی طرف سے دلائل مکمل کر لیں گے، آپ عدالت کو اسسٹ کرنا چاہتے ہے تو آپ اپنے کونسل سے مشورہ کرلیں، اگر کوئی بات رہ جائے تو آپ دلائل مکمل نے کے بعد کر سکتے ہیں، عدالت نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں 28 ستمبر تک توسیع کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔