سکردو (نیوز ڈیسک ) موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی مہم جوئی کے دوران لاپتہ ہونے والے پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ اور دو ساتھیوں کا 9 روز بعد بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ علی سدپارہ اور ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش میں نہ صرف جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد لی جا رہی ہے بلکہ پاک فوج نے ریسکیو ہیلی کاپٹرز اور سی 130 جہازوں کے علاوہ ایف 16 جنگی طیاروں سے بھی دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کے علاقے کے فوٹو گرافک سروے اور سرچنگ میں مدد فراہم کی ہے۔ان کی تلاش میں آئس لینڈ کی خلائی ایجنسی نے سٹیلائٹ کی جدید ٹیکنالوجی سے علاقے کی
تصاویر بنائیں اور کئی مایہ ناز کوہ پیمائوں کی جانب سے زمینی سرچ آپریشن بھی کیا گیا لیکن علی سدپارہ اور ساتھیوں کا سراغ نہیں مل سکا۔علی سدپارہ کی فیملی اور گلگت بلتستان حکام کی طرف سے آج پریس کانفرنس کیے جانے کا امکان ہے۔عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو موسم سرما میں بغیر آکسیجن کے سر کرنے نکلے تھے تاہم 5 فروری کے بعد سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔اس سے قبل نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں لاپتا ہونیوالے پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے کہا کہ سردی میں کلائمنگ بہت الگ ہے ، والد نے 8 پہاڑ سر کیے تھے اورصرف 6 رہتے تھے ، میرے والد کو یہ کام بہت پسند تھا ، والد کا خواب پورا کرنے کے لیے پرعزم ہوں اور اس سلسلے کو جاری رکھوں گا تاکہ پاکستان کا نام روشن کروں۔یاد رہے کہ موسم سرما کے دوران کے ٹو سر کرنے کی مہم جوئی کے دوران علی سد پارہ اور دو غیر ملکی کوہ پیما5 فروری کو لاپتا ہوگئے تھے۔ کوہ پیماؤں کا آخری مرتبہ رابطہ 8200 میٹر بلندی پر بوٹل نک سے ہوا تھا۔ موسم سرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سرچ کرنے کی مہم پر روانہ کوہ پیماؤں کو لاپتہ ہوئے آج6 روز گزر گئے ہیں۔ کے ٹو کی چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کی تلاش میں ریسکیو اراکین نے ہیلی کاپٹرز سے 7800میٹر بلندی پہ پرواز کی لیکن انہیں کسی بھی قسم کا کوئی سراغ نہیں ملا۔لاپتہ ہونے والے
کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے کیے جانے والے فضائی سرچ آپریشن میں نامور نیپالی کوہ پیما شرپا چنگ دوا اور ساجد سدپارہ نے بھی حصہ لیا تھا۔ فضائی سرچ آپریشن کے بعد ساجد سدپارہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسکردو پہنچا دیا گیا تھا۔ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی سرمائی مہم جوئی ٹیم کا حصہ تھے۔ ساجد سدپارہ کا اسکردو پہنچنے پر کمشنر بلتستان شجاع عالم اور ڈپٹی کمشنر سکردو کریم داد چغتائی نے استقبال کیا۔ساجد سدپارہ اپنے والد کے ساتھ مہم میں شامل تھے لیکن کے ٹو کی انتہائی بلندی کے قریب پہنچنے پر ان کے آکسیجن ریگولٹر میں خرابی آئی تو والد کے اصرار اور
ہدایت پر وہ واپس نیچے آگئے تھے۔ جبکہ آج علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے سرکاری سطح پر ایک اور اہم پیش رفت سامنے آئی جس کے تحت حکومت کی جانب سے علی سد پارہ سمیت 2 غیر ملکی کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے زمینی راستے سے مقامی کوہ پیماؤں کی 6 رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔