ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) متحدہ ریاست ہائے امریکا کے صدارتی انتخاب میں اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار جو بائیڈن کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران صدر منتخب ہونے کے بعد دُنیا بھر کے مسلمانوں سے برابری کا برتاؤ کرنے کے دعوے کیے ہیں۔تاہم سعودی انٹیلی جنس کے سابق چیف اور شاہی خاندان کے اہم رُکن شہزادہ تُرکی الفیصل نے کہا ہے کہ عربوں کو بائیڈن سے زیادہ اُمیدیں نہیں لگانی چاہئیں۔العربیہ نیوز کے مطابق تُرکی الفیصل نے کہا کہ اگر جوزف بائیڈن امریکا کے صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ ٹرمپ انتظامیہ کے اسرائیل نواز اقدامات پر
خط تنسیخ نہیں پھیریں گے اور یروشلیم (مقبوضہ بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت اور گولان کی چوٹیوں پر اس کی خود مختاری تسلیم کرنے ایسے فیصلوں کو برقرار رکھیں گے۔انھوں نے ابو ظبی میں بیروت انسٹی ٹیوٹ کی کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:” میرے خیال میں جو بائیڈن صدر کی حیثیت سے امریکا کو وہاں سے پیچھے نہیں لائیں گے جہاں مسٹر ٹرمپ لے گئے ہیں، خواہ یہ یروشلیم ہے ، گولان کی چوٹیاں یا معاہدہ ابراہیم ہے۔“انھوں نے کہا:”میری تشویش بعض عرب حلقوں بالخصوص اپنے فلسطینی دوستوں اور بھائیوں سے متعلق ہے۔اگر وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ صدر بائیڈن اپنے پیش رو مسٹر ٹرمپ سے مختلف ثابت ہوں گے تو میرے خیال میں انھیں یقینی طور پر مایوسی ہوگی۔“صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال متنازع علاقے گولان کی چوٹیوں پراسرائیل کی خود مختاری تسلیم کر لی تھی۔اسرائیل نے شام کے اس علاقے پر 1967ء میں عربوں کے خلاف جنگ کے دوران میں قبضہ کیا تھا اور 1981ء میں اس کو سرکاری طور پر ریاست میں ضم کر لیا تھا۔بائیڈن کی انتخابی مہم کے ایک سینیر عہدے دار نے اسی ہفتے امریکی خبری ذریعے جیوش نیوزسنڈیکیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیمو کریٹک صدر گولان کی چوٹیوں پر اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیں گے۔صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردیا تھا اور اس شہر کو اسرائیل کا متحدہ دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔انھیں اس فیصلے پر عرب ممالک نے
کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔جوزف بائیڈن انتخابی مہم کے دوران میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی سفارت خانے کو یروشلیم ہی میں برقرار رکھیں گے۔البتہ انھوں نے منتخب ہونے کی صورت میں فلسطینیوں کی مالی امداد بحال کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ واشنگٹن میں تنظیمِ آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کا دوبارہ دفتر کھولنے کی اجازت بھی دے دیں گے۔تاہم انھوں نے صدر ٹرمپ کے صرف ایک فیصلہ پر نظرثانی کا اعلان کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ایران کیساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے میں بعض شرائط کے ساتھ دوبارہ شامل ہوجائیں گے۔ صدرٹرمپ نے مئی 2018ء میں اس سمجھوتے سے یک طرفہ دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور ایران کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔