دُبئی(نیوز ڈیسک) چند روز قبل متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پایا ہے جس کے بعد طبی، سائنسی اور تحقیقی شعبوں میں بھی تعاون کے کئی سمجھوتے طے پائے ہیں۔ اس امن معاہدے پر بہت سے مسلم طبقات کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ تاہم ایک اماراتی عالم نے امارات اسرائیل امن معاہدے کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے اسے دُنیا کے امن کی خاطر ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا ہے۔متحدہ عرب امارات کے ادارہ برائے اسلامی امور و زکوٰة کے چیئرمین ڈاکٹر محمد مطار سالم الکعبی نے ایک ورچوئل سیمینار سے خطاب کے دوران کہا کہ امن معاہدے کا مقصد دو ریاستی
حل کی جانب بڑھنا ہے اور اسرائیل کو فلسطینی علاقوں پر نئی بستیوں کی تعمیر سے روکنا ہے۔اس معاہدے کے بعد مسلمانوں کی قبلہ اول مسجد اقصیٰ میں عبادت کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔یہ ورچوئل سیمینار آسٹریلیا کی سپریم اسلامک کونسل دارالفتویٰ کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جس کا عنوان ”حضورﷺ کی ہجرت مدینہ“ تھا۔ ڈاکٹر الکعبی نے مزید کہا کہ اس معاہدے سے خطے میں امن کا عمل آگے بڑھے گا۔ اس معاہدے سے پتا چلتا ہے کہ امارات دُنیا کا ایک پُرامن مقام بنانے کی جدوجہد میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نبی کریمﷺ نے بھی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب امن اور سلامتی کے مقصد کی خاطر ہجرت کی تھی۔جس کی انسانی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں ایشیا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور لاطینی امریکا کے 200 مندوبین نے شرکت کی۔واضح رہے کہ چند روز قبل فلسطینی القدس کے ایک مفتی کی جانب سے یہ فتویٰ جاری کیا گیا تھا کہ امارات اسرائیل سمجھوتے کے بعد اب اماراتی عوام کو مسجد اقصیٰ میں داخلے اور عبادت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اس فتوے پر مصر کے مشہور اسلامی تدریسی ادارے جامعة الازہر کے ایک مشہور عالم ڈاکٹر عباس شُمان نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی مفتی کی جانب سے اماراتی عوام کے خلاف دیئے گئے فتوے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی بھی مسلمان کو دُنیا بھر میں واقع کسی مسجد میں عبادت سے نہیں روکا جا سکتا۔ ڈاکٹر عباس نے مزید کہا کہ وہ اسلامی فقہ کے ماہر ہیں، اسلام کی فقہی تاریخ سے واقف ہونے کے باعث وہ یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آج تک اسلامی فقہ کی تاریخ میں کسی بھی خطے کے مسلمانوں کو کسی ایک مسجد یا مساجد میں نماز پڑھنے سے روکنے کا فتویٰ جاری نہیں ہوا۔