معاشرتی تعصب نے لفظ محبت کو اتنا گِھسا پٹا بنا دیا ہے کہ اس کا محسوس ہونا ہی گناہ تصور کیا جاتا ہے کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اوپر سے محبت کے اجازت نامہ پر آپ کو کئی اخلاقی فرعونوں کے دستخط مل جائیں گے جن کا دور دور تک لفظ محبت سے تعلق نہیں پر ایسی معاشرے کے ناپختہ اصولوں اور رواجوں نے انہیں محبت کا نا خدا بنا ڈالا اگر ہم فطری زاویوں پر نظر ڈال کر کیفیتِ محبت کی جانچ پڑتال کریں تو معلوم ہوگا شرف کمالِ انسانیت کا عروج محبت کے تبادلے میں پنہاں ہے تب ہی اسے رشتوں میں ملحوض خطر جان کر خوب نچاور کرنے کی تلقین کُتبِ انسانیت کے ورق ورق پر مل جائے گی۔
ہمیں موجودہ دور میں محبت کے اشکال کو خوب زہین نشین کرنا ہوگا جسے عرفِ عام میں اخلاقی تنازلی کے شکار افراد تشبہِ زوال کا لقب دیتے رہتے ہیں ہر گز ایسے افراد کی راہ ہموار نا ہونے دیں جن کے ہاں عقیدت سے جنم لیا ہوا لفظ محبت بے معنی راہ کے متلاشی ہے۔ عام مشاہدہ میں یہ بات جانچی گئی ہے کہ معاشرے اور اس میں پروان چڑھنے والی منفی قوتیں جو اصل حقائق مسخ کرکے خود ساختہ تعریف جو کسی طور بھی محبت کی ترجمانی نہیں کرتی جو زبان زد عام ہے یہاں ساتھ ساتھ چند سوالات اور بھی جنم لیتے ہیں کیوں حواس پرست معاشرے کے بل بوتے پر حیرت کدہ محبت کو کم ظرفوں کی چوکھٹ پر لا کھڑا کردیا جاتا ہے جہاں بھیک کی مانند محبت کے طلب گار قطار در قطار حیثیتِ بشریت سے محروم دیکھائی دیتی ہے اور چند بے نام سعتوں پر مبنی محبت کو ہی مُراد زندگانی کے درجہ پر فائز کرتے رہتے ہیں کب تک ازیت سہتی محبت کا رواج معاشرے میں شغل لگائے افراد کا مشغلہ ہوگا کب تک اسیر جرم کی پاداش میں محبت کو سرِدار چڑھایا جائے گا۔محبت بےاصول ازہان کی اکاس نہیں اور نہ ہی کم ظرف سے توقع کی جاسکتی ہے وہ اِسے خود پر واجب کرکے اس کے توازن کو غیر مستحکم قرار دے محبت ہی سوالوں سے جوابوں تک اور پھر اسے ایک مقدس رشتہ تک راہِ ہموار کا نام ہے جسے طے کرنے میں لہجوں کو گلِ گلزار کرنے کی دیر ہے کہانیوں کے عنوان سے مہکتی ہوئی خوشبو جیسے کِردار سے وجود تک سراپا وجد کے علمبردار ہو جانے کا عزاز حاصل ہے محبت کی کہانی میں کوئی ایسا موڑ تو لاؤ کہ جس پر خود محبت بھی یہی الفاظ بولے گی محبت فخر ہے شاید۔