سردار تنویرالیاس کا ایوان بالا سے دبنگ خطاب

تحریر: انجینئر اصغرحیات

سردار تنویر الیاس آزاد کشمیر کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے پاکستان کے ایوان بالا سے خطاب کیا، سردار تنویرالیاس نے ایوان بالا سے خطاب کے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیریوں کی بھرپور ترجمانی کی، وزیراعظم آزاد کشمیر نے اپنے خطاب میں نہ صرف ملکی مسائل کا بھرپور احاطہ کیا بلکہ ان مسائل کے حل کیلئے سمت کا بھی تعین کردیا، سردار تنویرالیاس نے درود ابراہیمی سے اپنے خطاب کا آغاز کیا اور تمام ممبران کو اپنے ساتھ درود ابراہیمی پڑھنے کی دعوت دی، وزیراعظم آزاد کشمیر نے سینیٹ کی گولڈن جوبلی پر چیئرمین سینیٹ اور ایوان بالا کے ممبران کو مبارکباد دی، انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ہمیں پیچھے مڑ کر اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو دیکھنا ہوگا، اگر ہم کہیں کہ ماضی میں سب اچھا ہی ہوا تو یہ انصاف نہیں ہوگا، ہمیں ماضی میں جھانک کر اپنی غلطیوں کو درست کرنا ہوگا، سردار تنویرالیاس نے کہا کہ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا، سینیٹ کی گولڈن جوبلی تقریبات میں قیام پاکستان کیلئے جدوجہد کرنیوالے آبا و اجداد اور بانیان پاکستان کو سلام پیش کرتے ہیں، پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے اور یہ مظلوم طبقے کی آواز بنے گا

ایوان بالا سے خطاب کے دوران سردار تنویرالیاس نے نہ صرف سیاسی اور پارلیمانی تاریخ کی غلطیوں کا ذکر کیا بلکہ ان کے حوالے سے مباحثے پر بھی زور دیا، انہوں نے کہا کہ سیاسی اور پارلیمانی نظریہ ضرورت والی شخصیات کے کردار پر بحث کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ہم پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ 1956 تک ملک کو قرار داد مقاصد کے تحت چلاتے رہے، 1956 کا  آئین بھی ملک کی بے چینی کو ختم نہ کرسکا، 1962 کے آئین نے بھی اختیارات کا مرکزی نظام دیا جس سے کم ہونے کے بجائے بڑھے، 1973 کے آئین کے تحت ایوان زیریں اور ایوان بالا وجود میں آئے، سردار تنویرالیاس نے اپنے خطاب میں آئین سے انحراف کو مسائل کی جڑ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین بننے کے چند سال بعد ہی آئین کو اٹھا کر سائیڈ پر پھینک دیا گیا، انہوں نے کہا کہ 1988 سے 1999 تک اگرچہ فوج نے اقتدار میں مداخلت نہیں کی لیکن اس دور میں بھی ایسی سیاسی غلطیاں کی گئیں جنہیں ضرور دیکھنا چاہیے، سردار صاحب کی یہ بات درست ہے کیونکہ ان گیارہ سالوں میں جمہوریت کو پنپنے کا خوب موقع ملا لیکن بدقسمتی سے سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنانے میں مصرف رہے

سردارتنویرالیاس نے ایوان بالا کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سینیٹ میں تمام اکائیوں کی نمائندگی ہے، انہوں نے کہا کہ ایوان بالا کے ممبران کو صوبائی اسمبلیاں منتخب کرتی ہیں، ایک ایک سینیٹر کو دو درجن کے لگ بھگ صوبائی اسمبلی کے ممبران ووٹ دیکر منتخب کرتے ہیں، اس لیے مسائل کے حل اور قومی یکجہتی کے قیام میں سینیٹ کا کردار اہم ہے، وزیراعظم آزاد کشمیر نے بابانگ دہل کہا کہ آئین میں کچھ ترامیم غیر ضروری ہیں، جن کی وجہ سے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیاست میں بہت پولرائزیشن ہے، کوئی کسی کی بات سسنے کیلئے تیار نہیں، سیاسی قیادت تعصب کا شکار ہے، ہمارے ادارے بھی اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ اس  صورتحال سے نکلنے کیلئے ہمیں کچھ اصول طے کرنے ہونگے، انہوں نے کہا کہ اس پر کون ڈسکس کرے گا کہ جج کے ٹکرز یا خبر نہیں چلنی چاہیے، جب کسی جج کے ریمارکس کے ٹکرز یا سپرلیڈ لگتی ہے تو جج صاحب اپنا کام چھوڑ کر خبروں کے پیچھے لگ جاتے ہیں جس سے انصاف پر سمجھوتہ ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ قومی اداروں اور ان میں بیٹھی شخصیات کا احترام کریں لیکن آئین سے انجراف کرنیوالوں کو ضرور ڈسکس کریں

سردار تنویر الیاس نے ایوان بالا سے خطاب کے دوران ایک کشمیری کا دکھ دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا، انہوں نے کہا کہ جب پاکستانی سیاست میں پولرائزیشن ہوتی ہے، جب صبح شام ٹی وی چینلز پر پاکستانی سیاست کے مسائل ڈسکس ہوتے ہیں تو تحریک آزادی کشمیر سے توجہ ہٹ جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ کشمیری 9 لاکھ درندہ فوج کا سامنا کررہے ہیں، ان کی آس ہماری طرف ہے، کشمیر میں رہنے والے ہر آدمی کی آمید پاکستان ہے، یہ کلمہ طیبہ یہ پاکستان ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اگر اتنی زیادہ سیاسی پولرائزیشن ہوگی تو کشمیری کیا سوچیں گے، اس لیے ہمیں کشمیریوں کا سوچ کر سیاسی پولرائزیشن کم کرنا ہوگی، مل کر بھارتی مظالم کو اجاگر کرنا ہوگا، وزیراعظم سردار تنویر الیاس نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر کشمیریوں کے حق میں پارلیمان کی مشترکہ قرار داد پر بھی ایوان بالا کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے یہ پیغام دیا کہ پوری قوم کشمیر کیلئے یک زبان ہے، پارلیمان کی مشترکہ قرار داد سے 9 لاکھ ظالم فوج کے سامنے سینہ سپر کشمیریوں کے حوصلے بلند ہونگے، اپنے لہجے میں تلخی کی وضاحت کرتے ہوئے سردار تنویر الیاس نے کہا کہ میرے کے لہجے میں تلخی ہوسکتی ہے کیونکہ 9 لاکھ درندہ فوج کا سامنا کرنیوالے کشمیری ہماری طرف دیکھ رہے ہیں

سردار تنویرالیاس نے ایوان بالا سے خطاب میں کسی بھی تنقید کے دوران حکومت اور ریاست کے درمیان فرق کو واضع کرنے پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو پتہ نہیں حکومتوں سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ریاست سے نہیں، انہوں نے سیاسی رہنماوں اور کارکنوں سے کہا کہ وہ حکومتوں سے اختلاف ضرور کریں لیکن ریاست سے اختلاف نہ کریں، انہوں نے کہا کہ ایوان بالا اور پارلیمان کی عوام کے مسائل کے حل کیلئے کوشش کرسکتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جو غلطیاں ہوچکیں انہں مستقبل میں نہ دہرایا جائے، اسی طوح کا جرگہ ہرکچھ وقت کے بعد ہونا چاہیے، جیسے پرانے اور نئے سینیٹرز مل کر بیٹھے ہیں، اسی طرح پرانی اور نئی قیادت کو مل کر بیٹھنا چاہیے، ملکی مسائل کے حل میں مباحثے کا کردار اہم ہے، انہوں نے کہا کہ نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے، ایوان بالا میں ایسی کمیٹیاں ہونی چاہیں جو نئی نسل کے نصاب پر نظر دوڑائیں اور نئی نسل کیلئے مستقبل کی پلاننگ کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں