سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے پردوٹوک پیغام دیدیا

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب کی کونسل آف منسٹرز نے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہماری ریاست کا فلسطین سے متعلق موقف عرب کا بنیادی ایشو رہا ہے۔اور اس وقت بھی ہماری خارجہ پالیسی کا اولین پوائنٹ مسئلہ فلسطین ہی ہے۔گزشتہ روز سعودی عرب کی کیبنٹ میٹنگ کا اجلاس بلایا گیا تھا جس کی صدارت سعودی کنگ شاہ سلمان نے کی۔اس اجلاس میں ملک کے مختلف حالیہ واقعات زیربحث آئے جن میں زیادہ گفتگو موجودہ کورونا وائرس سے متعلق کی گئی اور اسی میٹنگ میں سب سے اہم ایشو جس سے متعلق بات کی گئی وہ مسئلہ فلسطین کا تھا جس پر غاصب اسرائیل قابض بنا بیٹھا ہے۔

ڈاکٹر ماجد القسبی نے کہا کہ سعودی عرب اپنے2002 کے آرڈیننس کے مطابق فلسطین میں امن اور اس کی آزادی و خود مختاری کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہے۔سعودی حکومت نے اجلاس کے آخر پر بیان دیا کہ اسرائیل کے ساتھ ڈائیلاگ کا فورم ہمیشہ کھلا ہے ا ور اس کے ساتھ ہر قسم کا معاہدہ ہو سکتا ہے مگر اس سے پہلے اسرائیل کو فلسطین کا مسئلہ حل کرنا ہو گا، مسئلہ فلسطین کو حل کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ گفت و شنید ہو سکتی ہے اور اس کے ساتھ معاہدے بھی ہو سکتے ہیں مگر اس وقت نہیں۔پہلے اسرائیل فلسطین کو تسلیم کرے اور اس کا مسئلہ حل کر اسے کلیئر کیے بغیر وہ سعودی عرب سے یہ امید نہ لگائے کہ ہم اسے تسلیم کر لیں گے۔یاد رہے کہ اس وقت اسرائیل نے مسلم ممالک سے اپنے وجود کو تسکیم کروانے کے لیے بھرپور مہم شروع کرکھی ہے جس میں امریکہ اور امریکہ کے ماتحت کام کرنے والے دنیا کے اہم ادارے بھی ان مسلم ممالک کے ساتھ مختلف شرائط رکھ کر اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد جیراڈ کشنر اس وقت ساری توانائیاں ان مسلم ممالک پر صرف کررہا ہے جنہیں اسرائیل کو تسیم کروانے کے لیے شارٹ لسٹ کیا جا چکا ہے۔یاد رہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستانی حکومت پر بھی پریشر ڈالا گیا جس پر وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی جو پالیسی تھی ہماری حکومت کی بھی وہی پالیسی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں