جو بائیڈن کے امریکی صدر منتخب ہونے سے دنیا پر کیا اثر پڑے گا؟ بھارت کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر جو بائیڈن امریکہ کے 46ویں صدر منتخب ہو چکے ہیں ۔ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد عالمی منظر نامے پر کیا اثر پڑے گا اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک خصوصی رپورٹ جاری کی ہے ۔ بی بی سی کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن کی فتح سے چینی حکومت کو پریشانی ہوگی، چینی حکومت کی خواہش تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے صدر بنیں اور وائٹ ہاؤس مزید چار ان کی غلط پالیسیوں کے باعث تباہ ہوتا رہے، جس سے امریکہ میں مزید خرابیاں پیدا ہونے کا امکان تھا ۔

ٹرمپ کو چینی حکومت ایک ایسا شخص سمجھتی تھی جو امریکہ کی طاقت اور اثر و رسوخ میں کمی لانے کا باعث بن سکتا تھا لیکن جو بائیڈن چین کے سپر پاور بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے ۔رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان حالات خوشگوار نہیں رہیں گے ۔ بائیڈن بغیر لگی لپٹی بات کرنے کے عادی ہیں۔ ان کی انتخابی مہم میں کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے، اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) اور شہریت کے متنازعہ قانون (سی اے اے) پر بھی تنقید کی گئی ہے۔یہ وہ دو قوانین ہیں جنہوں نے انڈیا میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا تھا ۔ نو منتخب امریکی نائب صدر کمالا ہیرس کا تعلق بھی بھارت سے ہے لیکن اس کے باوجود یہی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ بھارت تعلقات اتنے خوشگوار نہیں ہوں گے جتنے ٹرمپ کے دور میں تھے ۔ جنوبی کوریا کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات خراب رہنے کا امکان ہے کیونکہ جنوبی کوریا سے جو بائیڈن کیخلاف بہت سی باتیں کی گئی تھیں ۔امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات میں تنزلی آئے گی، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو برطانیہ کا ڈونلڈ ٹرمپ کہا جاتا ہے اور جو بائیڈن ان کی جانب سے بریگزیٹ ڈیل کی مخالفت کر چکے ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو بائیڈن روس کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں اور پیوٹن کے بارے میں کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں دوبارہ صدر نہیں بننا چاہیے تھا، اس لیے کریملن اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات غیر معمولی حد تک

خراب ہو سکتے ہیں ، ایران کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ جو بائیڈن ایران کے اتھ جوہری معاہدہ دوبارہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس صورتحال میں عین ممکن ہے کہ دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آ جائیں، البتہ ایرانی حکومت کی جانب سے کہا چکا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں کوئی بھی ہو ، امریکہ کے حوالے سے ایران کی پالیسی نہیں بدلے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں