ماں کی لگن و کوششیں رنگ لے آئیں، 32 سال بعد کھویا ہوا بیٹا واپس مل گیا

بیجنگ (نیوز ڈیسک): ’مجھے 32 سال لگے لیکن میں نے اپنے اغوا ہونے والے بیٹے کو ڈھونڈ نکالا‘، ماں کی لگن و کوششیں رنگ لے آئیں، 32 سال بعد کھویا ہوا بیٹا واپس مل گیا، تفصیلات کے مطابق چین میں ایک ماں کی لگن اور انتھک کوششیں رنگ لے آئیں، چینی خاتون کا ڈھائی سال کی عمر میں کھویا ہوا بیٹا 32 سال بعد واپس مل گیا۔ خاتون کہانی سناتے ہوئے بتاتی ہیں کہ یہ اکتوبر 1988 کا دن تھا۔اور جیا اب دو سال اور آٹھ ماہ کا ہو چکا تھا۔ جینگزی کہتی ہیں کہ اس زمانے میں ٹیلی کمیونیکیشن یعنی رابطے کا نظام اتنا جدید نہیں تھا۔ ’مجھے چھ لفظوں پر مشتمل ٹیلی گراف ملا۔ گھر پر ایمرجنسی ہے۔

فوراً لوٹ آؤ۔‘ وہ کہتی ہیں مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوا ہے میں جلدی سے زیان واپس آئی جہاں ان کے مینیجر نے انھیں یہ تباہ کن خبر سنائی۔وہ کہتی ہیں کہ مجھے ایک ہی جملہ بتایا گیا کہ ’تمھارا بیٹا لاپتہ ہے۔ میرا ذہن ماؤف ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ گم ہو گیا ہے۔ یہ نہیں پتہ تھا کہ میں اسے تلاش نہیں کر پاؤں گی۔ جینگزی کے شوہر نے وضاحت کی کہ انھوں نے جیا جیا کو کنڈرگارٹن سے لیا اور گھر کے راستے اپنے خاندان کے ایک چھوٹے سے ہوٹل پر بچے کو پانی پلانے کے لیے رکا اور اس نے پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بچے کو صرف ایک یا دو منٹ کے لیے چھوڑا مگر جب مڑ کر پیچھے دیکھا تو بچہ غائب تھا۔جینگزی کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی مل جائے گا۔ انھوں نے کہا: میں نے سوچا کہ شاید میرا بیٹا گم ہو گیا ہے اور اسے اپنے گھر کا راستہ نہیں مل سکا اور امید کہ وہ کسی نیک دل کو ملے گا اور وہ اسے میرے پاس واپس لے آئیں گے۔’ لیکن جب ایک ہفتہ گزر گیا اور کوئی بھی اسے پولیس اسٹیشن نہیں لایا تو انھیں اندازہ ہو گیا کہ صورت حال سنگین ہے۔وہ سب سے پوچھنے لگے کہ کیا کسی نے ہوٹل کے پڑوس میں جیا جییا کو دیکھا ہے؟ انھوں نے جیا جیا کی تصویر کے ساتھ ایک لاکھ پمفلٹ شائع کروائے اور اسے شیان ریلوے سٹیشن اور بس سٹینڈ کے آس پاس تقسیم کرائے اور لاپتہ بچے کے لیے مقامی اخبارات میں اشتہارات دیے مگر ان کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ جینگزی نے کبھی بھی تلاش بند نہیں کی۔ ہر جمعہ کی سہ پہر جب وہ کام ختم کرلیتیں تو وہ جیا جیا کی تلاش میں ٹرین سے آس پاس کی صوبے نکل جاتیں، اتوار کی شام کو گھر واپس آکر پیر کی صبح پھر کام پر واپس

جاتیں۔ جب بھی انھیں کوئی سراغ ملتا کسی ایسے بچے کے بارے میں جو جیا جیا سے ملتا ہوتا تو وہ وہاں جا کر اس کے بارے میں تفتیش کرتیں۔پھر رواں سال 10 مئی کو مدرز ڈے کے موقعے پر انھیں شیان کے پبلک سکیورٹی بیورو کا حیرت انگیز فون آیا: ‘ماؤ ین مل گیا ہے۔’ جینگزی نے کہا ‘میں یقین کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔’ اپریل میں کسی نے انھیں ایک ایسے شخص کے بارے میں بتایا تھا جو بہت سال پہلے شیان سے اٹھا لیا گیا تھا۔اس شخص نے اس بچے کی بڑے ہونے کے بعد والی تصویر فراہم کی تھی۔ جینگزی نے یہ تصویر پولیس کو دی اور انھوں نے چہرے کو پہچاننے والی ٹیکنالوجی کا

استعمال کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ وہ شخص چینگدو شہر میں رہتا ہے جو کہ پڑوسی سیچوان صوبے میں ہے اور یہاں سے 700 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس وقت پولیس نے انھیں ڈی این اے ٹیسٹ کرانے پر راضی کیا۔ 10 مئی کو اس کا نتیجہ میچ کے طور پر واپس آیا۔اگلے ہفتے پولیس نے دوبارہ ڈی این اے ٹیسٹ کرایا اور جانچ سے ثابت ہوا کہ بلاشبہ وہ ماں اور بیٹے ہیں۔ جینگزی کا کہنا ہے کہ ‘جب میرا دوبارہ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرا بیٹا مل گیا ہے۔’ آخر کا 32 سال کے انتظار اور 300 سے زیادہ غلط سراغ ان کی تلاش ختم ہوگئی۔ پیر 18 مئی کو ان کے ملن کے دن کے طور

پر منتخب کیا گیا۔جینگزی نروس تھیں۔ انھیں یقین نہیں تھا کہ ان کا بیٹا ان کے بارے میں کیسا محسوس کرے گا۔ اب وہ بڑا ہوا آدمی تھا، شادی شدہ تھا اور اپنا انٹیریئر ڈیکوریشن کاروبار چلا رہا تھا۔جینگزی کو بعد میں معلوم ہوا کہ جیا جیا کو اغوا کیے جانے کے ایک سال بعد ہی سیچوان صوبے میں ایک بے اولاد جوڑے کو 6000 یوآن (آج کی رقم 840 ڈالر) میں فروخت کیا گیا تھا۔ اس کے گود لینے والے والدین نے اس کا نام گو ننگنگ رکھ دیا اور اسے اپنا اکلوتا بچہ بنایا۔انھوں نے چینگدو شہر میں ابتدائی سکول، مڈل سکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس نے کچھ سال پہلے

جینگزی کو ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا اور سوچا تھا کہ وہ ایک گرمجوش دل والی خاتون ہیں۔ جب انھوں نے اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی تو اس نے سوچا کہ وہ اس کی طرح دکھائی دیتا ہے جیسا وہ بچپن میں تھا۔ لیکن اس نے رابطہ قائم نہیں کیا۔ لیکن جس شخص نے جینگزی کو ان کے بیٹے کا سراغ دیا وہ شخص گمنام رہنا چاہتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں