اپوزیشن کے دبائو میں آکر این آر او دینے کی بجائے اقتدار چھوڑدوں گا،وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو احتجاج کا حق ہے، قانون توڑا تو جیل میں ڈال دیں گے،اپوزیشن کے دباؤ میں آکر این آراونہیں دوں گا، پاور چھوڑ دوں گا ،اپوزیشن نے استعفے دیے تو فوری منظور کرکے الیکشن کروا دیں گے۔انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سول اور ملٹری تعلقات ایک مسئلہ رہا ہے، اس کی تاریخ ہے، 58ء میں مارشل لاء لگا، لیکن کیا ماضی میں فوج سے کوئی غلطی ہوئی تو کیا ہم نے پوری فوج کو برا بھلا کہنا ہے، جسٹس منیر سے غلطی ہوئی تو پوری عدلیہ کو برا کہناہے؟کچھ لوگ پیسا ملک سے باہر لے کرجاتے ہیں

تو سارے سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں، ملٹری کا کام ملک چلانا نہیں، مارشل لاء کے آنے کا مطلب یہ نہیں فوج آجائے بلکہ جمہوریت کو ٹھیک کرنا ہوگا، موجودہ سول ملٹری تعلقات سب سے بہتر ہے، فوج حکومت کے پیچھے کھڑی ہے، پاکستانی فوج بدل چکی ہے، جمہوری حکومت اپنے منشور میں کام کررہی ہے فوج ساتھ کھڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں سوال پوچھتا ہوں کہ میری پارٹی کی پالیسی تھی کہ افغانستان کے مسئلے کا حل ملٹری حل نہیں، امریکا کی جنگ میں ہمیں نہیں پڑنا چاہیے تھا،آج پاکستانی فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی ہے، ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش پر فوج ساتھ تھی۔ کرتار پور کے مسئلے پر ساتھ کھڑی تھی، اپوزیشن کا مسئلہ ہے، نوازشریف کبھی جمہوری نہیں تھا، جنرل جیلانی نے پالا، منہ میں چوسنی دے کر سیاستدان بنایا، وزیرخزانہ بنایا، لیکن یہ ایک دم سُپر جمہوری بن گیا،صدر اسحاق سے ، جنرل آصف جنجوعہ ، پھر جنرل مشرف اور پھر جنرل راحیل کے ساتھ مشکل آگئی، پھر جنرل باجوہ کے ساتھ ان کو مسئلہ بن گیا، لیکن یہ چوری کرنے آتے ہیں، آئی ایس آئی اور ایم آئی ورلڈ کلاس ایجنسی ہے، ان کو چوری کا پتا چل جاتا ہے، یہ عدلیہ کو کنٹرول کرلیتے تھے،فوج سے لڑائی یہی ہوتی کہ ان کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے ۔اب کہتے جنرل ظہرنے کہا کہ آپ استعفیٰ دیں، میں جمہوری وزیر اعظم ہوں، کس کی جرات ہے مجھے کہے استعفیٰ دو،میں ہوتا تو استعفیٰ مانگنے والوں سے استعفے کا مطالبہ کرتا۔جنرل مشرف جب سری لنکا گیا تو جنرل ضیاء کو بلا کر کہتا میں آپ آرمی چیف ڈکلیئر کرتا ہوں، میرے پوچھے بغیر اگر کوئی جنرل کارگل پر حملہ کرتا تو میں آرمی چیف کو بلا کر ہٹا دیتا۔ان کے پاس اخلاقی

طاقت نہیں ہے۔ جمہوریت میں اخلاقی طاقت ہوتی ہے، پہلے ان کو دوتہائی ملی تو امیرلمومنین بننے کی کوشش کی، سیاسی لیڈر شپ عوام کو جوابدہ ہوتی ہے لیکن جواب نہیں دینا چاہتے۔انہوں نے کہا کہ فوج ایک حکومت کا ادارہے، حکومت کیلئے جس ادارے کی ضرورت پڑے گی اس کو استعمال کروں گا۔فوج بھی وزارت خارجہ کی طرح سکیورٹی رائے دینے اور میموری ہے، ایک مجرم ملک سے باہر بیٹھ کر سازش کررہا ہے، اس کو واپس لائیں گے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘میں جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم ہوں اور اگر مجھے کوئی ایسا کہے تو فوری طور پر میں اس کا استعفے کا مطالبہ کروں گا،

میں ملک کا وزیراعظم ہوں اور کس کی جرات ہے کہ مجھے آکر یہ کہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘اگر میرے پوچھے بغیر کوئی آرمی چیف کارگل پر حملہ کرتا تو میں اس کو سامنے بلاتا اور میں اس کو فارغ کرتا، اتنا بزدل نہیں کہ وہ سری لنکا گیا تو فارغ کروں’۔عمران خان نے کہا کہ ‘نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے، یہی الطاف حسین نے کیا، میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ان کے پیچھے 100 فیصد ہندوستان پوری مدد کر رہا ہے، پاکستان کی فوج کمزور کرنے پر دلچسپی ہمارے دشمنوں کی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکا میں ہندوستانی لابی میں کون بیٹھا ہوا ہے جو بڑا جمہوری بن کر پاکستان کی فکر

میں، حسین حقانی باہر بیٹھ کر پوری مہم چلاتا ہے اور یہاں نادان لبرلز بنے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں ہم فوج کے خلاف ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘میں ان سے کہتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنی آنکھیں کھولو اور لیبیا، عراق، شام، افغانستان، یمن اور پوری مسلم دنیا میں آگ لگی ہوئی اور اگر آج ہماری پاکستانی فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے’۔وزیراعظم نے کہا کہ ‘ہندوستان کے تھنک ٹینک باقاعدہ طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کو توڑنا ہے اور ہم اس فوج کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘میں پاکستان کی تاریخ کا واحد آدمی ہو ہوں جو 5 حلقوں سے جیت کر آیا ہوں، نواز شریف اور ذوالفقار علی

بھٹو کی طرح فوج کی نرسری میں نہیں پلا، ایوب خان کی کابینہ میں سارے جنرل تھے اور صرف ایک سویلین وزیر تھا’۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے پارلیمانی رہنماوں سے ملاقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھ کر ملاقات کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘گلگت بلتستان کے اندر بھارت مکمل طور پر متحرک ہے کیونکہ یہ سی پیک کی روٹ ہے اور اوپر سے انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور مسئلہ ہے’۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘گلگت بلتستان کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق ہوں اور ایک کش مکش میں ہیں، ہندوستان اس کا استعمال کررہا تھا اس لیے جنرل باجوہ

سیکیورٹی مسئلے آگاہ کیا جو ہمارا دشمن آگے جا کر مسئلہ اٹھا رہا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہندوستان نے ملک میں شیعہ سنی انتشار کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ہماری ایجنسیوں نے ناکام بنایا اور اسلام آباد میں لوگوں کو پکڑا، بی جے پی کی موجودہ حکومت جیسی ہندوستان میں اس قدر پاکستان مخالف کوئی حکومت نہیں آئی’۔اپوزیشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ مرضی چاہے کرلیں، مجھے ان کی کوئی فکر نہیں ہے، باہر بیٹھ کر فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنارہے ہیں تاکہ دباو بڑھا کر کسی نہ کسی طرح بیٹھ کر مشرف کی طرح این آر او مل جائے۔جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو کلین چٹ دینے سے متعلق سوال پر

انہوں نے کہا کہ ‘دو سال سے پہلے نیب کے ہوتے ہوئے کرپشن بڑھتی گئی اگر ہم نے ملک میں کمزور اور طاقت ور کے لیے قانون میں فرق کی تو ہمارا ملک کبھی بھی آگے نہیں بڑھے گا، اگر کوئی مزید سوال کرتا ہے تو ہم ان سے تفتیش کریں گے’۔انہوں نے کہا کہ ‘میری نظر میں اپنے اور دوسروں کے چوروں اور کرپٹ لوگوں میں فرق کرتے ہیں تو احتساب ختم ہوجاتا ہے، اگر جنرل (ر) عاصم باجوہ کے حوالے سے کسی نے سوال کیا تو تفتیش کریں گے اور ضرورت پڑی تو ایف آئی اے کے حوالے کریں گے’۔وزیراعظم نے کہا کہ میں گھر کے خرچ خود اٹھاتا اور گھر کے اندر سیکیورٹی باڑ تحریک انصاف نے اپنے پیسوں سے لگوائی اور اس کے لیے ٹیکس کا پیسہ خرچ نہیں کیا، مجھے کوئی تحفہ ملا تھا وہ توشہ خانے میں جمع کرکے جو پیسے بچے اس سے سڑک بنوائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں