پنجاب حکومت کا اینکر عمران خان کیخلاف بڑاقدم اٹھانے کا فیصلہ

لاہور (نیوز ڈیسک)وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے ایک تفصیلی یوٹیوب پیغام میں کہا ہے کہ ٹی وی اینکر عمران خان کی جانب سے یوٹیوب چینل پر وزیراعلیٰ پنجاب پر مسلسل الزام تراشی کی جا رہی ہے، اس انداز سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹیو اور ان کے اہل خانہ کیخلاف دشنام طرازی کرنا درست نہیں ہے، اینکر نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ملاقات سے قبل وہ کوئی ویڈیو جاری نہیں کریں گے لیکن انہوں نے دوبارہ وزیراعلیٰ کیخلاف ویڈیوز میں الزام تراشی کی اسی لیے اب یوٹیوب پر ہی جواب دینے پر مجبور ہوا۔ان سے درخواست ہے کہ اللہ نے جسے عزت دی ہے اس کا احترام کریں۔

عثمان بزدار کو اللہ نے جو عزت دی وہ نہ میرے نصیب میں آئی نہ آپ کے۔ عثمان بزدار مجرم تو دور کی بات ملزم بھی نہیں ہیں، اس لیے ان پر جو دل چاہے الزام لگائیں پر احترام سے بات کی جائے۔اپنی عدالت سجا کر خود ہی جج، وکیل بن جانا، خود ہی جراح کرنا، الزام لگا کر کسی کی عزت اچھال دینا ٹھیک نہیں ہے۔ایسے کوئی بھی یوٹیوب پر عدالت لگا کر کسی کی بھی عزت اچھال سکتا ہے، ایسے ہی لوگ آپ کی ذات سے متعلق بھی الزامات لگا سکتے ہیں۔ عزت و ذلت کے فیصلے انسانوں نہیں اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی ویڈیوز سے وزیراعظم پنجاب عثمان بزدار کی عزت میں کمی آ جائے گی تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ آپ ماشاء اللہ حق و سچ کے علمبردار بنتے ہیں، اچھا بولنا اچھی چیز ہے لیکن سچ بولنا اس سے بھی زیادہ اچھی چیز ہے۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کیخلاف تمام چیزیں سچی ہیں تو آپ ثبوت لے کے عدالت جائیں۔ اگر آپ عدالت، نیب اور تحقیقاتی اداروں کے پاس نہیں جاتے تو آپ اپنی تربیت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر رہے ہیں۔ آپ نے یوٹیوب پر اتنی ویڈیوز جاری کیں، اس کی جگہ آپ سپریم کورٹ یا سیشن کورٹ جاتے۔ آپ نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ آپ کا طریقہ دوسرے لوگوں نے اختیار کر لیا تو پھر یہ ایک بنانا ریاست بن جائے گی۔فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اس ویڈیو میں اینکر عمران خان کے ہر الزام کا ایک ایک کر کے جواب دیں گے۔ عمران خان نے پہلا الزام عائد کیا ہے کہ سردار عثمان بزدار نے اپنے تحصیل ناظم کے دور کے تمام ریکارڈ جلوا دیے تاکہ ان کیخلاف کرپشن کا کوئی ریکارڈ باقی نہ رہے،

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عثمان بزدار صاحب 2012 تک تحصیل ناظم رہے اور اس دوران ان کی تحصیل میں کسی قسم کے ریکارڈ جلنے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔میں حیران ہوں کہ آپ کو کس نے جھوٹ پر مبنی یہ تفصیلات فراہم کی ہیں۔ آپ نے دوسرا الزام عائد کیا کہ عثمان بزدار صاحب نے قبائلی علاقہ جات کے ترقیاتی منصوبوں میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹرائبل ایریا ڈیولپمنٹ پراجیکٹ بنیادی طور پر نیشنل رورل سپورٹ پروگرام کے تحت چلتا ہے۔ یہ کمیونٹی کی بنیاد پر چلایا جانے والا منصوبہ ہوتا ہے جس میں 80 فیصد فنڈ حکومت فراہم کرتی ہے۔اس پراجیکٹ کا انتہائی سخت

چیک اینڈ بیلنس ہے، ٹرائبل ایریا ڈیولپمنٹ پراجیکٹ کی ایک ویب سائٹ ہے جس پر ہر منصوبے کی تمام تر تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی حیران ہوں کہ عمران خان نے کیسے الزام لگا دیا، جبکہ اس پراجیکٹ میں کرپشن کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ تیسرا الزام یہ لگایا کہ ڈھائی سو ملین روپے کا ٹھیکہ محسن نامی ٹھیکے دار کو دیا گیا جو عثمان بزدار صاحب کا پڑوسی ہے۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا پڑوسی ہونا جرم ہے؟ اگر میرا کوئی ہمسائیہ ہو اور وہ کسی قسم کی کرپشن کرے تو اس کا الزام مجھ پر کیسے آئے گا؟ اگر ایسا کوئی ہمسائیہ آپ کا ہو تو کیا اس کی کرپشن کا الزام آپ پر عائد کیا جائے؟

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محسن نامی اس ٹھیکے دار کیخلاف موجودہ حکومت کے دور میں ہی، 2020 میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ چوتھا الزام یہ عائد کیا گیا ہے کہ عثمان بزدار کے بڑے بھائی طاہر بزدار کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو اپنے ڈیرے پر بلاتے ہیں اور مختلف اسکیموں کا افتتاح کرتے ہیں۔عمران خان صاحب اگر آپ سیاستدان ہوتے تو یہ بات نہ کرتے۔وزیراعلیٰ لاہور میں ہوتے ہیں تو ان کا حلقے کو ان کے خاندان کے لوگوں نے ہی دیکھنا ہے، حلقے کے مسائل کے حل کیلئے کردار ادا کرنا ہے۔ ہر شہر میں سرکاری ملازمین حلقے کے ایم این اے اور ایم پی اے کی غیر موجودگی میں ان کے نمائندوں سے

ہی رابطہ کرتے ہیں۔ ایک اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے بھائی جعفر بزدار کو ڈی جی خان بھیج کر ڈی جی خان سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی کا سافٹ افتتاح کروایا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کمپنی کے افتتاح کے وقت کی تصویر میں وزیراعلیٰ کے ایڈوائزر حنیف پتافی اور خاتون ایم پی اے فیتا کاٹ رہے ہیں اور عثمان بزدار کے بھائی پیچھے کھڑے ہیں۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی جعفر بزدار نہیں بلکہ حنیف پتافی صاحب تھے۔ آپ اگر اچھے صحافی اور اینکر ہیں تو آپ کو تو وزیراعلیٰ صاحب کی تعریف کرنی چاہیئے کہ وہ بڑے شہروں تک محدود ادارے کو پسماندہ اور چھوٹے شہر میں لے کر آئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں