وزیراعظم تنویرالیاس۔۔۔بلدیاتی انتخابات اور مسائل کا حل

تحریر:انجینئر اصغرحیات

آزاد کشمیر کی سیاست پاکستان کے دیگر خطوں سے مختلف ہے، یہاں روایت ہے کہ جس جماعت کی پاکستان میں حکومت ہو اسی کی آزاد کشمیر میں بھی حکومت قائم ہوتی ہے، جب کسی جماعت کی پاکستان میں حکومت ختم ہوجائے تو یہاں بھی حکومت غیر مستحکم ہوجاتی ہے، اسی عدم استحکام کا نتیجہ ماضی میں دنیا نے دیکھا کہ ایک اسمبلی میں چار چار وزرائے اعظم بھی تبدیل ہوئے، لیکن لگ رہا ہے کہ اس بار آزاد کشمیر کی سیاست میں کچھ ہٹ کے ہے، آزاد کشمیر میں 2021 کے انتخابات کے بعد عمران خان نے غیر متوقع طور پر سردار عبدالقیوم نیازی کو وزیراعظم آزاد کشمیر بنایا، نیازی صاحب ایک سیاسی کارکن ضرور تھے لیکن سیاسی طور پر کمزور وزیراعظم ثابت ہوئے کیونکہ انہیں پارٹی کے دونوں مضطوط دھڑوں کی بھرپور حمایت حاصل نہ تھی، انہوں نے اپنے 8 ماہ کے دور اقتدار میں نہ ہی سیاسی کارکنوں کی ایڈجسٹمنٹ کی اور نہ حکومت کو سیاسی طور پر مضبوط کیا، سردار عبدالقیوم نیازی صاحب کے سیاسی مشیران انہیں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا مشورہ دیتے رہے، جس پر عملدرآمد سے ان کی پارٹی ان سے دور ہوگئی، اپوزیشن بھی سردار عبدالقیوم نیازی کے قریب مفاد کیلئے اکھٹی تھی، لیکن جب مشکل وقت آیا تو اسی اپوزیشن نے آسان ہدف سمجھتے ہوئے سردار عبدالقیوم نیازی کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی، 9 اپریل کو پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد آزاد کشمیر میں بھی اپوزیشن عبدالقیوم نیازی کیخلاف عدم اعتماد کیلئے پر تولنے لگی، اپوزیشن رہنماوں کی جانب سے تحریک انصاف کے اراکین کے ساتھ رابطے شروع ہی ہوئے تھے کہ خبرچیئرمین تحریک انصاف عمران خان تک پہنچ گئی، عمران خان نے بروقت فیصلہ لیتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقتیوم نیازی کو تبدیل کرنے کی منظوری دی، یہ فیصلہ اس قدر اچانک تھا کہ اپوزیشن کو بھی سنبھلنے کا موقع نہ ملا، آزاد کشمیر اسمبلی میں تحریک انصاف کے 32 ارکان ہیں، جبکہ اپوزیشن کے 20 ارکان ہیں جن میں پیپلزپارٹی کے 12، ن لیگ کے 7 اور جموں کو کشمیر پیپلزپارٹی کا ایک رکن ہے، اس وقت اپوزیشن کو حکومت قائم کرنے کیلئے تحریک انصاف کے کم سے کم 8 ارکان کی حمایت درکار تھی، 9 اپریل کو عمران خان اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو 12 اپریل کو تحریک انصاف نے ہی سردار عبدالقیوم نیازی کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی، اور 14 اپریل کو سردار عبدالقیوم نیازی تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے عہدے سے مستعفی ہوگئے، اس دوران اپوزیشن نے متعدد بار قانونی نقطے نکال کر اسمبلی اجلاس ملتوی کروانے کی کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ہر محاذ پر ناکامی کے باعث اپوزیشن نے پہلے 18 اپریل کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے عمل کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور بعد ازاں ہتھیار ڈالتے ہوئے اجلاس میں شرکت کی، اس تمام مرحلے کے دوران تحریک انصاف کے اراکین اپنے چیئرمین کے فیصلے کے ساتھ ڈٹے رہے اور اپوزیشن ایک رکن کو بھی توڑنے میں ناکام رہی، حتی کہ سردار تنویرالیاس اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعت مسلم کانفرنس سے بھی وزارت اعظمی کیلئے ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے۔

پاکستان میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی اور قمرزمان کائرہ کو مشیر امور کشمیر کا قلمدان ملا تو پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے رہنماوں کے دل میں ایک بار پھر آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کی خواہش نے انگڑائی لی، سردار تنویرالیاس خوش قسمت ہیں کہ اس حوالے سے ابھی ہل چل کا آغاز ہی ہوا تھا کہ پنجاب میں وزارت اعلی کی کرسی کی جنگ شدید ہوگئی، حمزہ شہباز تحریک انصاف میں فاروڈ بلاک بنا کر وزیراعلی تو بن گئے لیکن الیکشن کمیشن نے پارٹی وفاداری تبدیل کرنیوالے اراکین کو نااہل قرار دیدیا اور عدالت نے حمزہ شہباز کو ٹریسٹی وزیراعلی کا خطاب دیدیا، پھر ضمنی انتخابات ہوئے جس میں پی ڈی ایم کو ناکامی ہوئی، اس کے بعد بھی بحران شدید ہوتا گیا اور یوں آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش خواہش ہی رہی، اور تحریک عدم اعتماد کی بات کرنیوالے خود خاموش ہوکر بیٹھ گئے، واقفان حال کہتے ہیں کہ پنجاب کی صورتحال نے کچھ بھرم رکھ لیا ورنہ تو حالات یہ تھے کہ نہ ہی میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر میں ایسے کسی ایڈوینچر کیلئے رضامندی ظاہر کی تھی اور نہ ہی تحریک انصاف کے کسی رکن نے حمایت کا عندیہ دیا تھا

سپیکر قانون سازاسمبلی چوہدری انوارالحق اور وزیراعظم سردار تنویرالیاس کے اختلافات کی خبر سامنے آئی تو اپوزیشن کے دل میں عدم اعتماد کی خواہش ایک بار پھر جاگ گئی، اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی، وزیرحکومت فہیم ربانی کے سینئر سیاستدان راجہ فاروق حیدرپر حملے کی ہر ذی شعور شخص نے مذمت کی، لیکن اپوزیشن اس واقعے کو لیکر پھر عدم اعتماد کی فضا بنانے لگی، آئے روز عدم اعتماد کی تاریخیں دی جانے لگیں، ایک اجلاس اور پھر دوسری بھیٹک، اپوزیشن نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیا، پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی نے بھی عدم اعتماد کی منظوری دیدی، اپوزیشن نے سردار عبدالقیوم نیازی اور دیگر تحریک انصاف کے رہنماوں سے رابطے کیے لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی، پھر اسپیکر کی مدد سے مہینہ بھر اجلاس چلایا گیا لیکن وفاق کی تمام تر مدد کے باوجود عدم اعتماد نہ لائی جاسکی، واقفان حال کا کہنا ہے کہ نواز شریف بھی آزاد کشمیر میں کسی قسم کے ایڈوینچر کی حمایت میں نہیں تھے، نواز شریف تک رپورٹ جاچکی تھی کہ عدم اعتماد کیلئے نہ صرف تحریک انصاف کے 7 سے 10 ارکان توڑنا پڑیں گے بلکہ ان کے سخت ترین حریف سردار عتیق احمد خان کا ووٹ بھی درکار ہوگا، ایسی صورت میں اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو وزیراعظم پیپلزپارٹی سے ہی بنے گا اور شائد ایسی شخصیت وزیراعظم کے منصب پر آبیٹھے، جس کا ٹریک ریکارڈ کوئی بہت اچھا نہ ہو۔

اب آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا دنگل بج چکا ہے، الیکشن کیلئے پولنگ 27 نومبر کو ہوگی، الیکشن کمیشن ہر قسم کی تیاری کرچکا، امیدواروں کے بیلٹ پیپرز شائع ہوچکے، بلدیاتی انتخابات کیلئے ہونے والے انتظامات پر 1 ارب روپے سے زائد خرچ ہوچکا، تو آزاد کشمیر کی اپوزیشن ایک بار پھر عدم اعتماد کی باتیں کررہی ہے، بلدیاتی انتخابات کے اعلان سے لیکر اب تک اپوزیشن کے کئی رہنما عدم اعتماد کا اعلان کرچکے لیکن لگتا یہی ہے کہ یہ شوشا بلدیاتی انتخابات سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے، وزیراعظم تنویر الیاس نے غیر متوقع طور پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا، اپوزیشن تیاری کے بجائے بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کے بارے میں سنجیدہ تھی، اب کیونکہ الیکشن کمیشن نے بھی اعلان کردیا اور الیکشن کے انعقاد کیلئے امن کمیٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا جاچکا تو الیکشن سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے، آزاد کشمیر میں 31 سال بعد بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں، ہرطرف مہم عروج پر ہے، انتخابی گہما گہمی ہے، ہزاروں کی تعداد میں امیدوار میدان میں ہیں، اس تمام گہماگہمی کا سہرا وزیراعظم سردار تنویر الیاس سے سر سجتا ہے، وہ پہلے دن سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے خواہاں تھے اور اپنے عملی اقدام سے بھی انہوں نے یہ ثابت کیا، گزشتہ دنوں اپوزیشن کے ایک رہنما سے ملاقات ہوئی، کہنے لگے یہ تو واقعی مذاق ہی مذاق میں آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہونے لگے ہیں، انہوں نے تسلیم کیا کہ اپوزیشن کی تیاری نہیں ہے اور موسم بھی سرد ہے اس لیے اپوزیشن چاہتی ہے کہ الیکشن فی الحال ملتوی ہوجائیں، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اپوزیشن مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی نہیں چاہتی، سیکورٹی کو بنیاد بنا کر بلدیاتی انتخابات کیخلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، میرے نزدیک نہ صرف بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بلکہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا بھی ایک چیلنج ہے ،بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا ہی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی جانب ایک بڑی پیشرفت ہوگی، یہ کام موجودہ وزیراعظم سردار تنویرالیاس ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ گزشتہ 30 سال سے برسراقتدار پارٹیاں ایسا کرنے میں ناکام ہوئی ہیں  

اپنا تبصرہ بھیجیں