ن لیگ کیسے ٹریپ میں آگئی؟

تحریر:انجینئر اصغرحیات

آٹھائیس مارچ کو اسلام آباد کا سیاسی درجہ حرارت عروج پر تھا، پی ڈی ایم کا مہنگائی مارچ سڑکوں پر تھا، مولانا کا قافلہ اسلام آباد پہنچ چکا تھا، مریم نواز کا قافلہ شہر اقتدار کی جانب رواں دواں تھا، وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد آخری مراحل میں داخل ہوچکی تھی، ساڑھے تین سال تک حکومت کیساتھ چلنے والی ق لیگ اور ایم کیو ایم حکومت سے علیحدگی کیلئے ذہن بنا چکی تھیں، حکومت آج گئی کل گئی کی خبریں زیر گردش تھیں، بہت سے لوگ وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دے رہے تھے، ہم کشمیر ہائی وے پر ڈیوٹی پر مامور تھے تو لیگی رہنما طارق فضل چوہدری کسی پارٹی رہنما سے فون پر بات کررہے تھے اور پوچھ  رہے تھے کہ ق لیگ سے معاہدے پر دستخط کس وقت ہونگے، رانا ثنا اللہ اور دیگر اہم رہنما بھی ق لیگ کے ساتھ معاہدے کی تصدیق کرچکے تھے، نوازشریف تخت پنجاب چوہدری بردران کو دینے کیلئے رضا مند ہوچکے تھے، اچانک صورتحال میں ڈرمائی تبدیلی ہوئی، چوہدری پرویز الہی اپنے صاحبزادے چوہدری مونس الہی کے ہمراہ بنی گالہ پہنچے اور عمران خان کی حمایت کا اعلان کردیا، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے استعفی دیدیا اور عمران خان نے چوہدری پرویز الہی کو وزیراعلی نامزد کردیا

یہ اتنی بڑی پیشرفت تھی کہ جس نے سیاسی بساط پلٹ کر رکھ دی تھی، تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے چہرے کھل اٹھے تھے، دوسری جانب ن لیگ پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے حامیوں کے چہرے مرجائے لگنے لگے تھے،تحریک انصاف کے حامی ایم کیو ایم کی واپسی کا بھی دعوی کررہے تھے اور یوں محسوس ہونے لگا کہ وہی منظر دوہرایا جارہا ہے جو یکم اگست 2019 کو چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی باری نظر آیا تھا، لیکن اس بار آزاد خیال صحافی بھی یہی دعوی کررہے تھے کہ اگر اپوزیشن اس کوشش میں ناکام ہوئی تو اسے بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی، عمران خان بھی اعلان کرچکے تھے کہ وہ تحریک عدم اعتماد سے سرخرو ہوجائیں تو پھر اپوزیشن سے اچھی طرح نمٹ لیں گے

28 مارچ کی رات کو ہی میری ن لیگ کے ایک ایم این اے کیساتھ نشست ہوئی، ان کیساتھ سیاسی صورتحال میں اسی ڈرمائی تبدیلی پر بات ہوئی، کہنے لگے ن لیگ کا پہلا ہدف پنجاب تھا جو اس نے حاصل کرلیا، میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے عمران خان تمام تر مخالفت اور ناقص کارگردگی کے باوجود عثمان بزدار کو اس لیے نہیں ہٹا رہے تھے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ جس دن عثمان بزدار کو ہٹایا ان کی جماعت کا کوئی دوسرا شخص وزیراعلی نہیں بن سکے گا، کیونکہ پنجاب میں تحریک انصاف میں دھڑے بندی عروج پر ہے اور عمران خان کو اس بات کا علم ہے، اب اپوزیشن کی جانب سے دباو بڑھانے کی وجہ سے عمران خان نے مرکز کی حکومت کو بچانے کیلئے عثمان بزدار سے استعفی لے لیا، یہی ہمارا اصل ہدف تھا، اب ن لیگ جہانگیرترین، علیم خان اور پی ٹی آئی کے دیگر ناراض دھڑوں کی مدد سے پنجاب میں اپنا وزیراعلی لائے گی،  پنجاب سکیور ہوجائے گا، ظاہر ہے پنجاب محفوظ ہونے کا ان کا مطلب یہی تھا کہ ن لیگ اپنی مرضی کی انتظامیہ لگائے گی، دیگر وہ تمام لوازمات پورے کرے گی جس سے اسے پنجاب سے آئندہ انتخابات جیتنے میں آسانی ہوگی، پنجاب سے اکثریت حاصل کرنے کا مطلب کے مرکز میں بھی اسی کی حکومت ہوگی، میں نے پوچھا ایم این اے صاحب یہ جو مرکز میں اتنی بڑی سرگرمی شروع کی گئی ہے اس کا کیا مقصد ہے؟ کہنے لگے یہ دباو بڑھانے کا ایک حربہ ہے، ابھی مرکز ن لیگ کا ہدف ہی نہیں، آگے گرمیاں آرہی ہیں، لوڈشیڈنگ عروج پر ہوگی، بجلی کے بل کئی کئی گنا بڑھ کر آئیں گے، آئی ایم ایف کیساتھ جو معاہدے کیے گئے ہیں ان کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب ہوگا، پٹرول، بجلی اور گیس مہنگی کرنا پڑیں گی، ایسے میں ن لیگ کو عوام غصے کا سامنا کرنا پڑے گا، وہ تو زرداری صاحب نے میاں شہباز شریف کو اس راستے پر لگا دیا، ورنہ مرکز میں ن لیگ کو یہ اتحادی حکومت سیوٹ ہی نہیں کرے گی، فیصلہ تو قیادت نے کرنا ہے لیکن یہ فیصلہ ن لیگ کیلئے ایک غیر مقبول فیصلہ ہوگا، جس کے پارٹی کی آئندہ کی سیاست پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں

چند روز قبل ایک اور ن لیگی رکن قومی اسمبلی سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا اتحادی حکومت کیسی جارہی ہے؟ کہنے لگے پیپلزپارٹی کے وزرا اپنی اتھارٹی کا بھرپور استعمال کررہے ہیں، غیر ملکی دورے بھی کررہے ہیں اور اپنے محکموں میں دھڑا دھڑ بھرتیاں بھی کررہے ہیں، میں نے پوچھا اور ن لیگ کے وزرا کیا کررہے ہیں؟ کہنے لگے ن لیگی وزرا عوامی غم و غصے کا سامنا کررہے ہیں، گزشتہ روز ایک ن لیگی وزیر سے پارلیمنٹ میں ملاقات ہوئی پوچھا کہ آپ کے رکن اسمبلی یہ کہہ رہے ہیں، کہنے لگے درست کہہ رہے ہیں، قیمتیں بڑھانے کا اعلان ن لیگی وزرا کو اکیلے کرنا پڑتا ہے، اتحادی اگلے روز پریس کانفرنس کرتے ہیں تب تک نزلہ ن لیگ پر گر چکا ہوتا ہے، میں نے پوچھا ن لیگ کو کیا مجبوری تھی حکومت لینے کی، کہنے لگے پہلے ن لیگ چاہتی تھی کہ عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیئے جائیں،لیکن قیادت کو بریفنگ دی گئی کہ عمران خان وقت سے قبل اہم ترین تقرری کا اعلان کرنا چاہتے ہیں، ساتھ ہی اپوزیشن رہنماوں پر مزید کیسز بنا کر انہیں گرفتار کرنے کا ارادرہ رکھتے ہیں اور ملک میں اپنی مرضی کا نظام لانا چاہتے ہیں جس سے آئندہ 5 سال یعنی 2023 سے 2028 تک ان کے اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار ہوجائے گی، جس کے بعد ن لیگ نے تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے حامی بھری، وزیر صاحب نے اعتراف کیا کہ باہر سے بیٹھ کر باتیں کرنا آسان تھا جبکہ ڈلیور کرنا بہت مشکل ہے،کہنے لگے اقتدار سبنھال کے یہ معلوم پڑا کہ معاشی حالات کئی گنا زیادہ گھمبیر ہیں، خان صاحب نے جاتے جاتے پٹرول پر سبسڈی کا اعلان کردیا، ہم مہنگا ترین پٹرول خرید کر سستا فراہم کرتے رہے، پاور پلانٹس کو آئل کی سپلائی رک گئی اور ملک تقریبا سری لنکا کی صورتحال کی طرف جارہا تھا، موجودہ حکومت کی جانب سے مشکل ترین فیصلے کرنے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے باوجود معیشت سنبھلی نہیں، آئی ایم ایف کا پیکج منظور ہو اور دو تین دوست ممالک سپورٹ کریں تو پھر جاکر ملک چلانے کے قابل ہونگے، پہلے چار چھ ماہ ملک کے فیصلے ہونگے، جب ذرا معیشت سنبھلی اور عوام کو ریلیف دینے کے قابل ہوگئے تو ریلیف دینے کی کوشش کریں گے، وزیر صاحب اور ایم این اے صاحب کی باتوں سے تو یہی لگا کہ ن لیگ خود ہی ٹریپ میں آگئی، زرداری صاحب بہترین چال کھیل گئے، سندھ حکومت بھی بچا گئے، مولانا کی مدد سے میاں صاحب کو رام کہانی سنا کر عمران خان کو بھی راستے سے ہٹا گئے، ایک ن لیگ بچی تھی جسے وزارت عظمی تھما دی، اب ن لیگ کے ہاتھوں حالات سنبھل نہیں رہے تو پیچھے کون بچا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں