سی ڈی اے:کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی یا کرپشن ڈویلپمنٹ اتھارٹی

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)اسلام آباد کو دارلحکومت بنانے کے لیے سال 1968 میں مقامی لوگوں سے روینیو ڈپارٹمنٹ نے قریباً 100 کے قریب موضع جات سے زمینیں لینے کا عمل شروع کیا۔ ان زمینوں کے عوض لوگوں کو متبادل حقوق جیسا کہ زمین کے بدلے زمین، رہائش کے بدلے رہائش اور معاوضہ کے علاؤہ دیگر بینیفٹ شامل ہیں۔ مگر جب سے CDA کے ادارہ کے قیام کے بعد یہ کام اس ادارے کے سپرد کیا گیا، تب سے اس میں بےضابتگیاں اور کرپشن کے ساتھ ساتھ لوگوں کے جاہز حقوق بھی سلب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اسی تناظر میں چند افراد نے CDA کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کر رکھی ہے مگر آج تک متعدد بار توہین عدالت کے باوجود CDA بے لگام رھا۔ ایسی ہی ایک کہانی ہے اسلام آباد کے علاقہ سنبل کورک جسے موجودہ ارچرڑ سکیم کے نام سے جانا جاتا ہے، کی ہے جس کی رہائشی شہناز بی بی آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔ 1999 سے تا حال عدالت سے stay order لینے کے باوجود اپنی آبائی زمینوں کے عوض جائز حقوق کے حصول کے لیے حکمران وقت سے اس مسئلے کے حل کے انتظار میں ہے۔ 2019 میں CDAکی طرف سے فارم نمبر 32 کی الاٹمنٹ اور بیگم تہمینہ نواز کو قبضہ دلوانے کی غرض سے CDA کے افسران نے دن دہاڑے مردوں کی عدم موجودگی میں اسلام آباد کی انتظامیہ، پولیس اور سول مشینری کے ہمراہ اور بارہا اسلام آباد ہائی کورٹ کے stay order کے ہونے کے باوجود سشہناز بی بی کے مکانات مسمار کر دیے۔ روکنے پر خواتین کو زدو کوب کیا گیا اور مکانات کے ساتھ ساتھ قیمتی اشیاء بھی تباہ و برباد کر دیں۔

یاد رہے کہ 1968 کو گزرے ہوئے تقریباً 50 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلےکی روشنی میں جس میں متاثرہ افراد کو تمام حقوق کی فراہمی تک کوئی بھی ایگرو فارم الاٹ کرنے یا کسی بھی سکیم کو لاگو کرنے سے واضح طور پر روکا گیا ہے۔ شہناز بی بی اور اس جیسے دیگر لوگوں کی وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور آرمی چیف جنرل باجوہ سے التجاء ہےکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاہے اور متاثرین کو نہ صرف حقوق دیے جاہیں بلکہ عرصہ دراز سے لوگوں کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنے اور با اثر افراد کو نوازنے کے ساتھ ساتھ متاثرین علاقہ کو طاقت کے ذریعے بے دخل کرنے پر CDA جیسے ادارے کو ہرجانہ بھی کیا جاہے۔ اس کے علاؤہ خاص طور پر فارم نمبر 32 کی الاٹمنٹ منسوخ کی جاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں