دورہ اسرائیل سے متعلق جھوٹی خبر، عالمی میڈیا نے زلفی بخاری سے معذرت کرلی

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز سید ذوالفقار بخاری کے دورہ اسرائیل سے متعلق خبروں پر عالمی میڈیا نے معذرت کر لی۔ تفصیلات کے مطابق مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں زلفی بخاری نے عالمی میڈیا کی جانب سے کی گئی معذرت پر مبنی لیٹر شئیر کیا جس میں تحریر تھا کہ ہم نے متنازعہ مواد ہٹا دیا ہے ۔ہم زلفی بخاری کی جانب سے اس رپورٹ کی تردید کا اعتراف کرتے ہیں اور اس رپورٹ کی وجہ سے جو تکلیف ہوئی اُس پر خلوص دل سے معذرت خواہ ہیں۔ زلفی بخاری نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ مجھے اُمید

ہے کہ سینئیر اینکرز اور جرنلسٹس ، جنہوں نے سر عام اس ذرائع سے مجھ پر دورہ اسرائیل کرنے کا الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا ، وہ اسی طرح کُھلے عام معافی بھی مانگیں گے۔انہوں نے کہا کہ مستقبل کے لیے میرا ایسے افراد کو مشورہ ہے کہ وہ کوئی بھی دعویٰ کرنے سے پہلے خود کو شرمندگی سے بچانے کے لیے اپنے ذرائع چیک کر لیں۔خیال رہے کہ حال ہی میں ایک مرتبہ پھر سے وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی زلفی بخاری کے دورہ اسرائیل کی خبریں گردش کرنے لگیں، اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سینئیر مشیر ، سید زلفی بخاری نے نومبر کے آخری ہفتے میں اسرائیل کا مختصر دورہ کیا تھا۔اسرائیلی اخبار کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برطانوی شہری ہیں اور انہوں نے برطانوی پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ کیا اور تل ابیب پہنچے، اور موساد کے سربراہ سے ملاقات کی۔ اخبار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ زلفی بخاری نے وزارت خارجہ میں سینئر حکام سے ملاقات کی اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا خصوصی پیغام پہنچایا، زلفی بخاری کا یہ دورہ متحدہ عرب امارات کی کوششوں سے ہوا ، عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔اسرائیلی اخبار کے مطابق اسرائیلی حکام نے اس دورے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم زلفی بخاری نے ایک مرتبہ پھر سے اس دورے کی تردید کی تھی۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں سید ذوالفقار بخاری کا کہنا تھا کہ میں اسرائیل نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پاکستانی اخبار نے میرے دورہ اسرائیل کا دعویٰ کسی ”اسرائیل ذرائع” کی بنیاد پر کیا جبکہ اسرائیلی اخبار نے یہ دعویٰ ”پاکستانی ذرائع” سے یہ دعویٰ کیا ، مجھے یہ سوچ کر تعجب ہو رہا ہے کہ آخر یہ خیالی پاکستانی ذرائع کون ہیں؟ بظاہر میں ہی ہوں جسے اس سارے معاملے سے دور رکھا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں