ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر ن لیگ کا ردعمل سامنے آگیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگر ادارہ یہ کہہ رہا ہے اور اگر ادارے کو یہ کہنے کی ضرورت پڑی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور ابھی بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی یہ سمجھے کہ اداروں کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہے تو پھر میرے خیال میں اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتے۔ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جو ادارہ کہہ رہا ہے اُس پر عمل کر کے دکھائیں۔ طلال چوہدری نے کہا کہ میں مرحوم جج ارشد

ملک کو کہاں سے لے کر آؤں تاکہ وہ آ کر بتائیں کہ کس طرح انہیں بلیک میل کر کے فیصلے لیے گئے۔ کس طرح احتساب کے عمل اور نیب پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔کس طرح سینیٹ کے الیکشن میں 64 لوگ ہوتے ہیں اور جب ووٹ آتے ہیں تو 14 لوگ کم ہو جاتے ہیں۔کس طرح عمران خان کے لیے آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر اتحادیوں کے ساتھ غیر فطری الائنس بنا کر اسے وزیراعظم بنا دیا جاتا ہے۔ ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے اگر میں کہوں کہ ان کے پیچھے محرکات نہیں ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ میں سچ نہیں بول رہا۔ طلال چوہدری نے کہا کہ رابطے کی تصدیق سب سے پہلے پچھلی مرتبہ آئی ایس پی آر نے خود کی جب انہوں نے کہا کہ محمد زبیر سے ملاقات ہوئی۔ملک کی قانون سازی کے معاملے میں کس آدمی کو ، کس پارلیمانی لیڈر کو نہیں پتہ کہ اداروں کے حاضر سروس افسران اسپیکر ہاؤس میں بیٹھ کر ایف اے ٹی ایف اور دوسری ترامیم کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ بات ڈھکی چُھپی نہیں ہے۔ میرے خیال میں اب بہتر یہی ہے کہ ادارہ کہہ دے کہ ہم نے سیکھ لیا ہے ، ہم نہیں آئیں گے، اب ہم سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہی ماضی دوہرائیں گے۔طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ میں گذشتہ چار ، ساڑھے چار سال کی اسٹوری بتا دیتا ہوں، سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب جے آئی ٹی بنی تھی اور اُس جے آئی ٹی میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کو شامل کیا گیا تو اس وقت کیوں ادارے نے نہیں سوچا کہ ہم متنازعہ ہو جائیں گے ۔ انہوں نے کیوں خود کو اس جے آئی ٹی سے علیحدہ

نہیں کیا ۔ اس کے بعد میاں نواز شریف نے صدر بنانے کے لیے جب قانون سازی کی تو میں اس بات کا گواہ ہوں کہ ہمارے ایم این ایز کو فون آتے رہے کہ آپ ووٹ ڈالنے نہ جائیں۔اس کے بعد جیپ کے نشان الاٹ ہوئے ، بلوچستان کی محبت میں ایک پارٹی بنائی گئی، جنوبی پنجاب میں پارٹی بنائی گئی، ہماری پارٹی کو توڑا گیا، نیب کے عمل پر دباؤ ڈالا گیا، ہمیں مجبور مت کریں کہ ہم نام لے لیں۔ ہم سے نام نکلوانے کی بجائے ادارے خود احتسابی کریں ، ادارے مداخلت کر رہے ہیں اور عمران خان کے پیچھے بھی کھڑے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں