بیٹے ساجد سدپارہ نے اپنے والد کے آخری الفاظ بتادیئے

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ نے نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کے آخری الفاظ تھے کہ ” میرے پاس اوپر آ جاؤ”۔ وہ مجھے اپنے پاس بُلا رہے تھے۔ ساجد سدپارہ نے بتایا کہ ہم کُل 25 سے 30 کوہ پیما جا رہے تھے کہ مگر وہ سب واپس آگئے اور صرف ہم 4 رہ گئے۔ اس کے بعد جب ہم نے سفر شروع کیا تو میری بھی بس ہوگئی کیوں کہ بغیر آکسیجن کے وہ انتہائی مشکل راستہ تھا۔مجھے والد نے کہا کہ تمہارے پاس آکسجین سلنڈر ہے تم اسے استعمال کرو اور اوپر آجاؤمگر بد قسمتی سے میری صحت نے مجھے

اجازت نہ دی اور میں مزید اوپر چڑھ نہ سکا۔ ساجد سدپارہ کا کہنا ہے کہ میرے پاس جو بچی کُھچی آکسجین تھی وہ میں کچھ خرابی کے باعث استعمال نہیں کرسکا ، یہی وجہ تھی کہ مجھے واپس آنا پڑا۔انہوں نے بتایا کہ میرے والد اور جان اسنوری اور جے پی جب اوپر جا رہے تھے تو سب بالکل ٹھیک تھا، بس ہلکی سی تیز ہوا اور فوگ سی موجود تھی۔ساجد سد پارہ نے کہا کہ آرمی اور حکومت ہمارا مکمل ساتھ دے رہی ہے۔ میں نے خود وہ موسم دیکھا ہے۔ وہاں بغیر امداد کے رہنا نا ممکن ہے۔ میں بھی آخری سرچ آپریشن میں ساتھ گیا تھا۔ ہم نے اپنی بھرپور کوشش کی تھی۔ ہم سے جتنا ہوسکا ہم اوپر تک گئے۔ وہ لوگ بہت تجربہ کار تھے۔ ساجد سد پارہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب وہ اوپر چڑھ رہے تھے تو دوپہر کا وقت تھا، میرا دل تو یہی کہتا ہے کہ شام تک میرے خیال سے انہوں نے “کے ٹو” کو سر کرلیا تھا اور واپسی پر انہیں کوئی حادثہ پیش آیا ۔خیال رہے کہ عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کی کے ٹو پر تلاش کے لیے سرچ آپریشن آج تیسرے روز بھی جاری ہے۔ گذشتہ دو روز کیے جانے والے فضائی سرچ آپریشن میں بھی موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کا کوئی سُراغ نہیں مل سکا تھا۔ یاد رہے کہ کے ٹو کی چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کی تلاش میں ریسکیو اراکین نے ہیلی کاپٹرز سے 7 ہزار 800 میٹر بلندی پہ پرواز کی لیکن انہیں

کسی بھی قسم کا کوئی سراغ نہیں ملا۔لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے کیے جانے والے فضائی سرچ آپریشن میں نامور نیپالی کوہ پیما شرپا چنگ دوا اور ساجد سدپارہ نے بھی حصہ لیا۔ فضائی سرچ آپریشن کے بعد ساجد سدپارہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسکردو پہنچا دیا گیا تھا۔ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی سرمائی مہم جوئی ٹیم کا حصہ تھے۔ ساجد سدپارہ کا اسکردو پہنچنے پر کمشنر بلتستان شجاع عالم اور ڈپٹی کمشنر اسکردو کریم داد چغتائی نے استقبال کیا۔ساجد سدپارہ اپنے والد کے ساتھ مہم میں شامل تھے لیکن کے ٹو کی انتہائی بلندی کے قریب پہنچنے پر ان کے آکسیجن

ریگولٹر میں خرابی آئی تو والد کے اصرار اور ہدایت پر وہ واپس نیچے آگئے تھے۔ گذشتہ روز اپنے ایک بیان میں علی سدپارہ کے صاحبزادے ساجد سدپارہ نے بلند حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے والد کے زندہ ہونے کا امکان معدوم ہونے کا بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ اب سرچ آپریشن میتوں کی تلاش کے لئے کیا جانا چاہئیے ،کیونکہ 8 ہزار میٹر بلندی پر اتنی دیر زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں