چیئرمین ایف بی آر کا عہدہ کیوں چھوڑا، شبرزیدی نے حقیقت بتادی

لاہور ( مانیٹرنگ ڈیسک)سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال پاکستانی بزنس مین 120سے150بلین ڈالرملک سے باہر پار کرتے ہیں۔پاکستانی اشرافیہ یا سیاستدان کالا دھن کیسے کماتے ہیں۔اس کا فارمولا ایسے ہے کہ وطن عزیز میں انڈسٹری کے لیے جو بھی پلانٹ لگایا جاتا ہے اس کا کمیشن سیٹ کر لیا جاتا ہے اور وہ پیسا باہر ہی رکھ لیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ فارن کرنسی اکاؤنٹس سے دبئی کتنے پیسے جاتے ہیں وہ الگ معاملہ ہے۔حیران کن اور افسوسناک بات یہ ہے کہ جو پیسا باہر گیا ہے اس سے کچھ کما تو نہیں سکیں

گے بلکہ یہ پیسا گنوا بیٹھیں گے کیونکہ ان کے بچوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ پیسا کہاں ہے اور یہ لے ہی نہیں سکیں گے۔شبر زیدی نے پروگرام اینکر عارف نظامی کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے بتائیں کہ لاہور یا کراچی کا کون سا بندہ ہے جس کے پاس لندن میں فلیٹ نہیں ہے۔سیاستدانوں کے علاوہ عام لوگوں کے پاس بھی دبئی میں فلیٹ ہیں۔ستر کی دہائی کے بعد یہ سب شروع ہوا اس سے پہلے نہیں تھا۔پیسے یہاں کماؤ اسے باہر لے جاؤیہی دھندہ ہے اور اسی پہ ملک چل رہا ہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ واپس بے شک نہ لے آؤمگر ڈیکلیئر کر دو تاکہ پیسا باہر ضبط نہ ہو جائے۔کسی بھی ڈیلوپمنٹ ملک میں پیسا واپس بھیجنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔یہ تو آپ بھول جائیں کہ پیسا واپس آئے گا۔دبئی یا سوئٹزرلینڈ کے بینک آپ کے ساتھ کوآپریٹ نہیں کرتے،جب تک پیسا ان کے پاس پڑا ہے وہ آپ کے ساتھ اچھا تعلق رکھیں گے۔جب آپ چیک مانگیں گے تو وہ منہ دوسری طرف پھیر لیں گے۔میں ڈیڑھ سو بلین ڈالر کی بات کر رہا ہوں یہ صرف نواز شریف کا نہیں ہے،اور لوگ بھی شامل ہیں اس رقم میں۔پاکستان میں اس چیز کی صلاحیت بہت کم ہے کہ وہ اس کالے دھن کو واپس لا سکے اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو آپ نے ثابت کرنا ہے کہ یہ پیسا کرپشن کا ہے۔پھر یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ یہی وہ پیسا ہے جو باہر کے ممالک میں رکھا ہے۔بزنس مین لوگوں کا بھی پیسا باہر ہے جس میں اسی فیصدکرپشن کا پیسا ہے اور بیس فیصد کاروبار کا ہے۔جو بھی آدمی جس چیز کا کام کررہا ہے چاہے پولٹری ہے لوہا چاہے جس چیز کا بھی اس کا

پیسا ملک سے باہر ہیے۔پیساتو کاروبار کا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے کاروبار اور کرپشن کا پیسا ایک ساتھ کر دیا ہے ااگر یہ پیسا الگ ہوتا تو آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب نہ ہوتا۔شبر زیدی نے اس کالے دھن سے متعلق مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسٹیٹ سپانسرڈ کرپشن ہے۔میں نے ثاقب نثار کی کورٹ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ پیسے الیگل باہر نہیں گئے آپ کی حکومت کی پرمشن سے گئے۔جب ضیا کے دورمیں افغان وار میں ڈالر آئے تو اس وقت یہ سلسلہ شروع ہوا۔اس ملک میںمافیاز ہیں سب سے بڑا مافیا لاہور چیمبر آف کامرس اور کراچی چیمبر آف کامرس ہے۔ان لوگوں کی

بلیک میلنگ کی وجہ سے میں نے تنگ آ کر ایف بی آر چھوڑ دیا۔مجھے حکومت،فوج یا بیوروکریسی سے کوئی ایشو نہیں تھا۔ان سب اداروں نے میرے ساتھ تعاون کیا۔مگر مجھے بزنس مافیا نے پریشان کیا کیونکہ میں نے جہاں بھی ہاتھ ڈالا انہوں نے ہڑتال کر دی۔میں کوئی بھی قانون پاس کرنے لگتا یہ کہتے ہم ہڑتال کردیں گے۔جب تک یہ مافیا بیٹھا ہے نہ آپ ٹیکس اکٹھا کر سکتے ہیں اور نہ ہی باہر سے پیسا واپس لا سکتے ہیں۔اس حوالے سے کوئی قانون کوئی بیوروکریسی اور کوئی بھی تگڑا افسر کچھ نہیں کر سکتا۔میں واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ بھتہ گیری بدمعاشی ہے اور ان سب لوگوں کا ووٹ

بینک عمران خان کاووٹ بینک نہیں ہے۔یہ ان لوگوں کے سپورٹر ہیں جو سب ایک ہو کر آج عمران خان کے خلاف ہیں۔مگر میں عمران خان کو داد دیتا ہوں کہ وہ آج بھی ناگزیر حالات کے باوجود میدان میں ڈٹا کھڑا ہے۔اس کے اعصاب مجھ سے زیادہ طاقتور تھے لہٰذا وہ یہ سب جھیل رہا ہے وگرنہ میں تو ناکام ہو گیا تھااور میں نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور ایف بی آر چھوڑ دیا۔کیونکہ یہ مافیا مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیتا تھااور مجھے ان پر غصہ آتا تھا۔عمران خان نے بہت کچھ کیا کووڈ کی وجہ سے پیچھے آنا پڑا۔یہ بڑی جنگ ہے وہ انشا اللہ جیت لیں گے۔اوراگر عمران خان مایوس ہو کر چھوڑ جائے تو وہ بدقسمت ترین دن ہو گا۔لیکن مجھے امید ہے کہ وہ اس ملک و قوم کے لئے کچھ نہ کچھ کر جائے گااور اس حوالے سے مریم نواز اور بلاول کو چاہیے کہ وہ عمران خان کا بازو بنیں۔اگر وہ ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائیں تو یہ ملک بہت جلد ان مافیاز کے چنگل سے آزاد ہو جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں