کابل (نیوز ڈیسک)سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ افغانستان سمیت دنیا کے باقی علاقوں میں بھی جنگ بندی ہو جائے۔بظاہر تو بائیڈن بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتا ہے مگر افغانستان میں امن کا معاہدہ ہونے کے بعد اس کے اصلحہ نے ایک بار پھر دوڑ لگا رکھی ہے۔ افغان طالبان نے جوزف بائیڈن کے افغانستان سے انخلاء سے متعلق بیان پر انتباہی انداز میں رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج پر حملے دوبارہ شروع کر دیں گے۔طے شدہ تاریخ پر تمام فوجی نہ نکلے تو اسے امریکا کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مئی تک افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء ممکن نظر نہیں آتا تاہم اگلے سال امریکی فوج کو افغانستان میں نہیں دیکھ رہا۔افغان طالبان نے امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے فوج کے انخلاء سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دوحا معاہدہ ہی پرامن افغانستان کے قیام اور 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے دانشمندانہ اور مختصر ترین راستہ ہے۔امریکی صدر کے بیان پر ردعمل میں افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے دوحا معاہدے اور غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء سے متعلق مبہم بیان دیا، بعض نیٹو ممبر بھی افغانستان میں قیام کی توسیع کے خواہاں ہیں۔افغان طالبان کا کہنا ہے کہ دوحا معاہدہ ہی پرامن افغانستان کے قیام اور 20 سالہ کے خاتمے کے لیے دانشمندانہ اور مختصر ترین راستہ ہے۔ امارات اسلامی معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدوں پر مضبوطی سیکاربند ہے، چاہتے ہیں امریکا بھی دوحا معاہدے پر مضبوطی سیکاربند رہے۔ امریکا جنگ چاہنے والے حلقوں کے اکسانے کی وجہ سے تاریخی موقع ضائع نہ کرے۔دوسری جانب برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں نامعلوم امریکی حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس قسم کے ٹیک اوور سے افغانستان میں القاعدہ کو دوبارہ منظم ہونے میں مدد ملے گی۔امریکی صدر جو بائیڈن اس بات کا فیصلہ کررہے ہیں کہ کیا ساڑھے 3 ہزار امریکی فوجیوں کے انخلا کے لیے یکم مئی کی ڈیڈ
لائن پر عمل کیا جائے جو ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس فروری میں طالبان کے ساتھ معاہدے میں طے کی تھی۔امریکا اخبار نے لکھا کہ کچھ امریکی عہدیداران جو کہ افغانستان میں امریکی فوجی رکھنے کے حامی ہے وہ خفیہ اداروں کی رپورٹ کو استعمال کر کے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ فوجیوں کو ڈیڈ لائن کے بعد بھی افغانستان میں موجود ہونا چاہیے۔مذکورہ رپورٹ پر وائٹ ہاؤس کی جانب سے کسی قسم کے تبصرے سے انکار کیا گیا۔یہ کلاسیفائیڈ انٹیلیجنس جائزہ گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے لیے تیار کیا گیا تھا۔