گلوبل پاکستان کشمیر سپریم کونسل کی عالمی کشمیر کانفرنس ۔۔۔ تحریر: سید شبیر احمد

گلوبل پاکستان کشمیر سپریم کونسل لندن کی ایک غیر سیاسی تنظیم ہے جو دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں۔ معاشی ناہمواریوں اورمعاشرتی نا انصافی کے خلاف لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ ممتازکشمیری سماجی راہنما راجہ سکندر خان تنظیم کے چیئرمین جبکہ معروف قانون دان چوہدری کالا خان اس کے صدر ہیں۔ تنظیم کی برطانیہ میں مختلف شہروں کے علاوہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں بھی شاخیں کام کر رہی ہیں۔ گلوبل پاکستان کشمیر سپریم کونسل مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی ظلم وجبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف لندن میں بھارتی سفارت خانے اور دوسرے شہروں میں ان کے کونسل خانوں کے سامنے مظاہرے کرتی چلی آ رہی ہے۔

کشمیر کی موجودہ صورت حال پر تنظیم کی طرف سے جون میں ایک عالمی زوم کانفرنس کا اہتمام کیا کیا، جس میں موجودہ صورت کا جائزہ لے کر آئندہ کے لئے ایک مشترکہ لائع عمل اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کانفرنس میں صدر آزاد کشمیر اورپاکستان سینٹ کے ممبران کے علاوہ پوری دنیا سے کشمیری راہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ 5 اگست کو بھی ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے نافذ کردہ کرفیو اور لاک ڈاؤن کا ایک سال پوراہونے پر انڈین سفارت خانہ لندن اور دوسرے شہروں میں کونسل خانوں کے سامنے بھارت کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ اس موقع پر برطانیہ میں مقیم کشمیری اور پاکستانیوں کی آواز سے پورا برطانیہ گونج اٹھا۔گلوبل پاکستان کشمیر سپریم کونسل کے زیراہتمام 5 اگست کو لندن میں مقامی وقت کے مطابق پانج بجے کشمیر پر ایک کل جماعتی عالمی اجتماع زوم کے ذریعے منعقد کیا گیا۔ جس کا مقصد بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ایک سال سے بے رحم لاک ڈاؤن اور کشمیر کی غیرقانونی جغرافیائی حدود کی تبدیلی کے خلاف کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور اس پر مستقبل کے لئے ایک لائع عمل کی تیاری تھی۔ زوم کنونشن میں شرکت کے دعوت نامے ایک ہفتہ قبل ہی تیس شرکاء کو بھیجے گئے تھے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے اسمبلی سیشن اور ایک عزیز کی وفات کی وجہ سے شرکت کے لئے معذرت کر لی تھی۔ برطانیہ میں پاکستانی سفیر نفیس زکریا کے علاوہ برطانوی ممبر پارلیمینٹ افضل خان۔ لیوٹن سے لارڈ قربان حسین۔ سابق ممبریورپین پارلیمینٹ اور میئر برنلے واجد خان۔

سابق بیوروکریٹ شمائلہ محمود۔ امریکہ سے جاوید راٹھور۔ ساؤتھ افریقہ سے سلمان خان۔ برطانوی سینئر صحافی ڈاکٹر رڈلے۔ چوہدری زراعت خان۔ راجہ شاہداختر خان۔محترمہ شہناز صدیقی۔ راجہ سلطان خان اور راقم سید شبیر احمد نے اس کنونشن میں شرکت کی۔ برطانیہ۔ یورپ۔ امریکہ اور دنیا میں مقیم کشمیری اور پاکستانی کشمیر کے لئے بہت کام کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی ممتاز شخصیات راجہ ظفر الحق۔ مشاہد حسین سید۔ زلفی بخاری۔ مشال ملک۔ عبدالرشید ترابی اور عبدالباسط نے کنونشن میں شرکت نہیں کی جس سے کشمیر کے بارے میں ان کی ترجیحات کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ کنونشن کا آغاز ان عمائدین کی عدم شرکت اور انتظار کی وجہ سے آدھا گھنٹہ لیٹ شروع ہوا۔ کنونشن کی آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔

راجہ سکند خان نے گلوبل پاکستان کشمیر سپریم کونسل کی طرف سے کنونشن میں شرکت کرنے پرسب شرکا ء کا شکریہ ادا کیا۔ کنونشن منعقد کرنے کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے، انہوں نے بتایا کہ گلوبل پاکستان کشمیر سپریم کونسل اپنے قیام کے مختصر عرصے میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے دو سو سے زیادہ مظاہرے۔ سیمینار اور ریلیاں منعقد کر چکی ہے۔ اس سال پانچ فروری کو بھی تنظیم نے میرپور۔ آزاد کشمیر میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر کشمیر کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس کی صدارت ریٹائرڈ چیف جسٹس آزاد کشمیر جناب عبدالمجیدملک نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کہ ہم ستر سال سے کشمیر کے لئے لڑ رہے ہیں، لیکن ہمیں کامیابی کیوں نہیں ملی۔

انہوں نے سب سے پہلے لیوٹن سے لارڈ قربان حسین کو خطاب کی دعوت دی۔ لارڈ قربان حسین نے فرمایا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کے لئے دنیا کی پانچویں بڑی فوج رکھی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بے شمار بچوں۔ جوانوں۔ بوڑھوں اور عورتوں کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے۔ اب بھارت نے کشمیر کی جغرافیائی حدود ختم کر دی ہے، جو کہ ان کے اپنے آئین کی دفعہ 370 اور 35 Aکی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کو عالمی میڈیہ کو کشمیر جانے کی اجازت دینی چا ہیے اور وہ یہ اجازت اس لئے نہیں دے رہا، کیونکہ اس نے وہاں انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیاں کر رکھی ہیں۔ عالمی برادری کوبھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بٹھانا چا ہیے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل کو کشمیر میں آنے دینا چاہیے۔امریکہ سے کشمیر سالیڈیرٹی کونسل کے چیئرمین جاوید راٹھور نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں بسنے والے سب کشمیری بھارت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ بھارت میں اس وقت دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی حکومت ہے۔ آئین کی دفعہ 370 اور 35 A کو ختم کر کے وہ اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بھارت جو کشمیر کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کر رہا ہے، وہ اس کے چین سے کیے ہوئے معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ بھارت ایشیاء میں سب سے بڑی طاقت بن کر سب کو دبانا چاہتا ہے، اسی لئے وہ سیکورٹی کونسل کا بھی مستقل ممبر بننا چاہتا ہے۔اس نے پچھلے چھ ماہ میں چار سو سے زیادہ ہندو پنڈتوں کو کشمیری باشندہ ریاست بنا دیا ہے اور وہ ابھی مزید بیس لاکھ ہندوستانیوں کو کشمیری شہریت دے کر کشمیر میں آباد کرنا چا ہتا ہے۔ اس کے برعکس وہ کشمیر کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال رہا ہے۔

اس کے ان غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے اگر دو سال بعدکشمیر میں ریفرنڈم ہوتا ہے تو وہاں صورت حال بہت مختلف ہو گی۔ بھارت چناب اور جہلم دریاؤں کا رخ بھی تبدیل کرنے میں لگا ہوا ہے جس سے آئنیدہ سالوں میں پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہو گا۔ وہ ساؤتھ ایشیا ء میں بہت گندا کھیل کھیل رہا ہے جس سے اسے عالمی طاقتوں کو باز رکھنا چا ئیے۔ اقوام متحدہ اب ایک فیل شدہ ادارہ ہے اس لئے اب سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو کوئی اقدام اٹھانے چا ہیں۔برطانیہ میں پاکستانی سفیر جناب نفیس زکریا نے نہایت مدلل خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج گلوبل پاکستان کشمیر سپریم کونسل اور دو سری تمام تنظیموں نے ہندوستانی سفارت خانے اور کونسلیٹ کے باہر بہت کامیاب مظاہرہ کیا ہے، جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کشمیر میں سب کچھ بند ہے۔ ایک سال سے مقبوضہ کشمیر میں مکمل کرفیو اور لاک ڈاؤن لگا رکھاہے۔ بھارت نے برطانوی ممبر پارلیمنٹ کو انڈیا اور کشمیر میں داخل نہیں ہونے دیا۔کشمیر میں رہنے والوں کے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔ ان کی املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس دوران انڈیا نے کشمیر میں بے شمار انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ پیلٹ گنوں کا استعمال کر کے بے شمار کشمیریوں کو بینائی سے محروم کر دیا ہے۔ گیارہ سو سے زیادہ نوجوانوں کو اغوا کر کے شہید کر دیا ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور نیوز کی ہزاروں رپورٹس اس پر موجودہیں۔ جن نوجوانوں کو انڈیا نے دہشتگرد قرار دے کر فوج کے ہاتھوں مروایا ہے وہ سب کشمیری جوان تھے۔ ڈی این اے میں وہ جوان مقبوضہ کشمیرکے شہری ثابت ہوئے ہیں جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، لیکن بھارتی فوج نے انھیں مار دیا۔ اس وقت برطانیہ۔ یورپ اور سیکورٹی کونسل کے دوسرے ممالک کو انڈیا پر زور دینا چا ہیے کہ وہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی بند کرے۔ لاک ڈاؤن اور کرفیو کو ختم کرے۔ پاکستان ان حالات میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔برطانوی ممبر پالیمینٹ افضل خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں کشمیر کے حق میں آواز اٹھ رہی ہے۔ ہندوستان کشمیر میں بچے اور نوجوان گرفتار کر رہا ہے۔ ان کو بغیر کسی مقدمہ کے قید میں رکھاجا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک ننھے بچے کے سامنے اس کے نانا کو بیدردی سے فائرنگ کر کے شہید کر دیا جس کی لاش اس معصوم بچے کے سامنے کتنی دیر پڑی رہی۔ جوان بچوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر ان کا پتہ نہیں چلتا۔ اب یہ ظلم بندہونا چا ئیے۔ اس وقت دنیا ایک گلوبل ولج بن چکی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس لئے ہم سب کو کشمیر کی اس صورت حال کے بارے میں میڈیہ پر بات کرنی چا ہیے۔ انڈیا میں بی جے پی کی حکومت سب اقلیتوں کو دبا رہی ہے۔ ان کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ہم نے پہلے بھی اس پر بات کی ہے اور اس پر برطانوی پارلیمینٹ میں بھی بات کرتے رہتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کا جو رویہ باقی ملکوں کے ساتھ ہوتا ہے وہی کشمیر کے بارے میں بھی ہونا چاہیے۔ جیسے انسانی حقوق باقی ملکوں میں ہیں، کشمیر میں بھی وہی ہونے چا ہیں۔ یہاں معاشی سرگرمیاں بھی ویسی ہی ہونی چاہیں۔ ہم سب مل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم اکٹھے ہوں اور کشمیریوں کا ساتھ دیں۔ میں پہلے بھی کشمیر کے لئے بولتا رہاہوں اور آئندہ بھی کشمیر پر بات کروں گا۔ میں یہاں کچھ نقات پیش کرتا ہوں۔
٭ کشمیر میں پر امن احتجاج جاری رہنا چاہیے۔
٭ ہندوستانی عدالتوں اور قانون کو کشمیریوں کو انصاف مہیا کرنا چاہیے۔
٭ برطانوی حکومت اور اقوام متحدہ کو انڈیا پر زور دینا چا ہیے کہ وہ کشمیر میں امن قائم کرے
٭ عراق میں ساٹھ ہزار فوج پر اتنا شور اٹھا تھا اور اب کشمیر میں نو لاکھ فوج پر کوئی شور نہیں کرتا۔ کشمیر میں فوج کی تعداد میں کمی ہونی چائیے۔سینئر جرنلسٹ رڈلے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کشمیر میں ظلم اور زیادتیاں بندہونی چاہیں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو کشمیر میں جانا چاہیے۔ انہوں نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ممتار سابق سینئر بیوروکریٹ اور محقق محترمہ شمائلہ محمود نے کہا کہ آج ہم یہاں انڈیا کے کشمیر پر غلط اور غیرقانونی غاصبانہ قبضہ کے خلاف بات چیت کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ کشمیر میں ایک سال کا طویل ترین کرفیو اور لاک ڈاؤن نافذ ہے۔
نڈیا نے نو لاکھ سے زیادہ فوج کشمیر میں اکٹھی کر رکھی ہے، جو کشمیریوں کے ساتھ ظلم۔ زیادتیوں اور ان کے ماوراء عدالت قتل میں ملوث ہے۔ اس کے باوجود دنیا نے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔
نو سال کے بچے تک کو طویل غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر دنیا کو بھارت کے کشمیر پر اس غیر قانونی تسلط کے بارے میں بتائیں۔ اب لوگوں میں بیداری پھیل رہی ہے۔ ہر شعبے میں کام کرنے والے پاکستانیوں اور کشمیریوں کو اپنے اپنے لیول پراس مسئلے کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ اور انڈیا نے آزادی کا معاہدہ دستخط کیا ہوا ہے۔ اس لئے برطانیہ کہ چاہیے کہ وہ انڈیا پر زور دے کہ اس معاہدے کے تحت ریاستوں کو عمل کرنے دینا چاہیے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر میں مداخلت کرنی چا ہیے اور امن قائم کرنے پر زور دینا چاہیے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف میں کشمیریوں پر ظلم کرنے پر انڈیا کے خلاف مقدمہ درج کرانا چاہیے۔ پاکستان کو چائنہ اور دوسرے دوست ممالک سے مدد لینی چاہیے۔سابق ممبر یورپین پارلیمینٹ اور میئر برنلے واجد خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں اور بہتری لانی چاہیے۔ کیونکہ دنیا کو کشمیر کے بارے میں ابھی اتنا علم نہیں ہے۔ عالمی تنظیموں کو بتانا چا ہیے کہ آر ایس ایس کشمیر اور انڈیا میں کیا ظلم کررہی ہے۔ سوشل میڈیہ میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کادور ہے اس کو استعمال میں لا کر کشمیر کو انٹرنیشنل میڈیہ تک اپنا موقف پہنچا کر ان سے مدد لینی چاہیے۔

سلمان خان چیئرمین ساوتھ افریقہ کشمیر ایکشن گروپ ساؤتھ افریقہ میں کشمیر لئے کافی سرگرم ہیں انہوں نے کنونشن میں اپنے خطاب میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نیلسن منڈیلا کی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مسئلہ کشمیر کو مضبوط انداز میں پیش کرنے کے لئے نیلسن منڈیلا کی حکت عملی ہی بہتر ہو گی۔ جس طرح اس نے افریقہ میں سیاہ فام لوگوں کے لئے ان کے حقوق کی جنگ لڑی اس ہی طرح ہمیں بھی کشمیریوں کے مسئلے کو اجاگر کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا جس طرح آج ماضی کی سابقہ عالمی طاقتیں اپنا اثر کھو چکی ہیں اس ہی طرح بھارت بھی ایک دن ٹوٹ جائے گا۔
محترمہ شہنازصدیقی چیئرپرسن کشمیر کونسل یو کے نے راجہ سکندر خان کا کنونشن میں بلانے پر شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ انڈیا نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اب وہ اس کی جغرافیائی حدود تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا میں کشمیر اس وقت سب سے زیادہ فوج رکھنے والا علاقہ ہے۔ دنیا میں فوج سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے لیکن انڈین آرمی لوگوں پر ظلم کرنے کے لئے ہے۔ دنیا نے COVID۔ 19 کی وجہ سے اب اکٹھے ہونے سے منع کیا ہے جبکہ ہندوستان نے کشمیرمیں 5 اگست 2019 سے یہ پابندی لگا رکھی ہے۔ کشمیر کی مددکے لئے یہاں پارلیمینٹ ممبران۔ کونسلرز اور عام لوگوں کو بھی آگے آنا چاہیے۔ برطانوی حکومت کو بھی کشمیریوں کی سپورٹ کرنی چاہیے۔ کشمیر میں بسنے وا لے لوگوں کی آواز دنیا تک پہنچنی چاہیے اس کے لئے ہم سب کو کشمیر اور کشمیریوں کی سپورٹ جاری رکھنا چاہیے۔ راجہ شاہد اختر فیلو انسٹیٹیوٹ کیمیکل انجنیئرز نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔ ہمیں مسئلہ کشمیر کو پروموٹ کرنا چاہیے۔ اس وقت بھارت نے کشمیر میں بدترین لاک ڈاؤن اور بے رحمانہ رویہ روا رکھا ہوا ہے۔ ہم سب اس وقت کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں مسلم ممالک کو اپنے ساتھ ملانا چا ہیے اس کے لئے ہمیں ان کا یہ بیانیہ بدلنے کی ضرورت ہے جس میں وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحدی تنازعہ ہے۔ ہم برطانیہ میں ریلیاں نکالتے ہیں لیکن اس سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہاں پاورفل وزارتیں ہندوستانی نژاد وں کے پاس ہیں۔ ہمیں مسلم ممالک میں بھی اپنا موقف واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے اور اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چوہدری زراعت خان وائس چیئر۔ ایڈوائزری بورڈ GPKSCنے بتایا کہ وہ آج سارا دن بھارت کے خلاف مظاہرے میں شریک رہے ہیں۔ پرامن مظاہرے میں بہت لوگوں نے شرکت کی، برطانوی پولیس نے بھی تعاون کیا۔ اب ہم سب کو مل کر کوئی قانونی راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ ہم سب کو بتا سکیں کہ انڈیا کشمیر میں کیا کر رہا ہے۔ ہمیں ایک لیگل فریم ورک تشکیل دینا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب پارٹیوں کے لوگ کشمیر کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر کام کریں۔ سید شبیر احمد نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ اس وقت ہمیں کشمیر پر ایک موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اپنے تمام اختلافات بھلا کر صرف کشمیر کے لئے کام کرنا چاہیے۔ آخر میں راجہ سکندر خان نے سب شرکاء کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجو د کنونشن میں شرکت کی۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ گلوبل پاکستان کشمیر سپریم کونسل آئندہ بھی کشمیریوں کے لئے ایسے ویب نار اور کنونشن منعقد کرتی رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں