نواز شریف کی اداروں کے سربراہان کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کی وجہ سامنے آگئی

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیراعظم نواز شریف کے اچانک جارحانہ انداز اپنانے پر یہ سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں کہ آخر نواز شریف اتنا عرصہ خاموش کیوں رہے،اور اگر انہیں اداروں کے سربراہان سے اتنا ہی مسئلہ تھا تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں ایکسٹینشن کے لیے ووٹ کیوں دیا۔اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے اب جو باتیں کی ہیں ظاہر ہے وہ انہیں بہت عرصہ سے معلوم تھیں۔لیکن اس کے بعد نوازشریف نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی حمایت کی اور خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔میرا خیال ہے کہ اس ووٹ کی حمایت دینے کے لئے

دونوں کے درمیان جو طے پایا تھا اس کے بدلے میں نواز شریف کو کچھ ریلیف دیا گیا،نواز شریف باہر چلے گئے لیکن اس کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ مریم نواز بھی لندن جائیگی۔اگر مریم نواز لندن چلی جاتیں تو شاید معاملات اس حد تک آگے نہ جاتے۔اسی سلسلے میں لیگی رہنما محمد زبیر کو بھی آرمی چیف کے پاس ملاقات کے لیے بھیجا گیا تھا۔لگتا ہے وہاں پر کوئی ناخوشگوار گفتگو ہوئی جس کے بعد نواز شریف نے جارحانہ انداز اپنایا ہے۔اب وہاں پر کیا گفتگو ہوئی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔جب محمد زبیر کو اس ملاقات میں جواب نہیں ملا تو اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ نواز شریف نے اپنا انداز بدل لیا ہے۔جب نواز شریف کو جواب مل گیا کہ ہم آپ کے ساتھ مزید تعاون نہیں کر سکتے تو انہیں محسوس ہوا کہ میرے ساتھ دھوکا ہو گیا ہے۔جنرل باجوہ کے دور میں ہی نواز شریف جیل میں گئے اور اسی دور میں حالات خراب ہوئے ،آرمی چیف کو تین سال کے لئے ووٹ بھی دیا لیکن اس کے باوجود بھی کوئی ریلیف نہیں دیا گیا،شہباز شریف گرفتار ہوگئے اور دیگر لیگی رہنماؤں پر بھی مقدمات بن گئے۔نوازشریف کو بھی مفرور قرار دیا گیا۔نواز شریف نے جب محسوس کیا کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب مزید گنجائش کا فائدہ نہیں۔لہذا کہا جاسکتا ہے کہ محمد زبیر کی ہونے والی حالیہ ملاقات میں جب کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تو نواز شریف نے جارحانہ انداز اپنانے کا حتمی فیصلہ کیا۔یاد رہے کہ گزشتہ روز گوجرانوالہ میں جلسے سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ کچھ لوگوں کی

خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں لوگوں کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں، لوگ بےروزگار ہوگئے ہیں، گیس اور بجلی کے بل ادا کرنا لوگوں کے بس میں نہیں رہا حتیٰ کہ ادویات بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟

عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟نواز شریف نے کہا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے میں نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں