شارجہ میں مقیم پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ، حکام نے کریک ڈائون کرکے کتنے ہزار پاکستانیوں کو نکال دیا؟

شارجہ(نیوز ڈیسک) شارجہ کے علاقے القادسیہ سے گزشتہ2 روز کے دوران جاری کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 4 ہزار سے زائد کنواروں اور کارکنوں کو گھروں سے نکال دیا گیا ہے، جن میں پاکستانی بڑی گنتی میں شامل ہیں۔ تاہم اب یہ کریک ڈاؤن آج جمعہ کے روز سے شارجہ کے تمام رہائشی علاقوں میں شروع کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں کنوارے اور بیوی بچوں کے بغیر رہنے والے افراد کے لیے بڑی مصیبت کھڑی ہو گئی ہے۔رہائشی علاقوں میں مقیم کنواروں کارکنوں کے خلاف یہ کریک ڈاؤن شارجہ کے فرمانروا شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی کی ہدایات پر کیا جا رہا ہے۔

جنہوں نے حکم دیا ہے کہ خاندانوں کے لیے مخصوص رہائشی علاقوں میں کسی کنوارے شخص کو رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔صرف وہ ان علاقوں میں رہ سکیں گے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ اس کریک ڈاؤں کے دوران تمام فیملی ایریاز میں مقیم ایسے تمام کارکنوں اور ورکروز کو بے دخل کر دیا جائے گا جو اپنے گھر والوں کے ساتھ رہائش نہیں ہیں۔البتہ فیملی والے تا رکین کو رہنے کی اجازت دی جائے گی۔ شارجہ میونسپلٹی نے آج سے رہائشی علاقوں سے کنواروں اور ورکرز کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔انتظامیہ کے مطابق اس آپریشن کا مقصد اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم افراد کی پریشانی ختم کرنا اور انہیں تحفظ کا احساس دلانا ہے۔اس دوران کئی گھروں کے بجلی اور گیس کے کنکشنز بھی کاٹ دیئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہشارجہ کے علاقے القادسیہ میں مقیم اماراتی خاتون نے ٹی اور ریڈیو کے پروگرام میں شکایت لگائی تھی کہ وہ ایک مضافاتی علاقے میں اپنے بچوں کے ہمراہ مقیم ہے۔اس کے آس پاس کے گھروں میں سینکڑوں غیر ملکی بغیر گھر والوں کے مقیم ہیں۔ جو اکثر بے ہودہ حرکات میں ملوث پائے گئے ہیں ، ان تارکین کی جانب سے خواتین کو عجیب نظروں سے گھورا جاتا ہے اور نازیبا انداز اپنائے جاتے ہیں۔ جس کے باعث محلے کی دیگر خواتین اور ان کے بچے بہت پریشان ہیں۔ یہ معاملہ شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی کے علم میں آیا تو انہوں نے فوری طور پر شارجہ میونسپلٹی اور پولیس کو حکم دیا کہ خوف و ہراس کی شکار خاتون کی شکایت دُور کرنے کے لیے اس کے آس پاس کی عمارتوں میں مقیم کنوارے اور بغیر فیملیوں کے مقام افراد کو فوری طور پر ان گھروں سے بے دخل کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ شارجہ کے تمام علاقوں میں بھی ایسا کریک ڈاؤن کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں