نواز شریف کے الزامات پرسابق ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام نے وضاحت کردی

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سابق ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الا اسلام نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے الزامات کا جواب دے دیا۔تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی جانب سے 30 ستمبر بدھ کے روز اپنی جماعت کے اہم اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔نواز شریف کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ 2014 کے دھرنوں کے دوران انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ مارشل لاء نافذ کر دیا جائے گا۔نواز شریف کا دعویٰ تھا کہ تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ نے پیغام بھیجا تھا کہ آپ استعفیٰ دے دیں

ورنہ مارشل لاء لگ جائے گا۔ ظہیرالاسلام نے کہا کہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ مجھے آدھی رات کو ظہیرالاسلام کا یہ پیغام ملا اور ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اگر آپ استعفیٰ نہیں دیں گے تو نتائج بھگتنا پڑیں گے ، مارشل لاء بھی لگ جائے گا۔نواز شریف کا کہنا رھا کہ یہ پیغام موصول ہونے کے بعد میں نے کہا کہ جو ہونا ہے ہوجائے، آپ نے جو کرنا ہے کرلیں، میں اس طرح استعفیٰ نہیں دوں گا۔ نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کی جائے گی، لیکن جے یو آئی ف کے رہنما عبدالغفور حیدری کی جانب سے آرمی چیف سے ملاقات کے حوالے سے جو دعوے کیے گئے ہیں، ان کی تاحال کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔نواز شریف کا مزید کہن تھا کہ پاکستانی بن کر رہوں گاغلام بن کر نہیں، ان چیزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرچکا ہوں،دوٹوک فیصلہ کیا ہے کہ ہم ذلت کی زندگی نہیں جی سکتے، عزت کی زندگی گزاریں گے ۔نواز شریف کے ان الزامات پر اب تک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے کوئی ردِعمل نہیں دیا گیا تھا۔تاہم آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی سابق وزیراعظم نواز شریف سے استعفی طلب نہیں کیا۔جنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ انہوں نے کسی بھی شخص کے ذریعے نواز شریف کو کوئی پیغام بھیجا تھا۔انہوں نے کہا ہے کہ میں نے کسی کو بھی وزیراعظم کو کوئی پیغام دینے کے لیے نہیں بھیجا یہ بالکل غلط بات ہے۔اس کے بجائے انہوں نے اصرار کیا کہ 2014 کے دھرنے کے وقت ہر موقع پر وہ حکومت کو مشورہ دیتے رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک سے سیاسی انداز سے نمٹا جائے تاکہ احتجاج ختم کیا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں