نوازشریف کا اداروں کے خلاف بیانیہ، حکومت کا 40لیگی ارکان اسمبلی سے رابطہ

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی نعیم اشرف بٹ کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کی حکومت کے خلاف نئی حکمت عملی سامنے آئی ہے۔حکومت نے اپوزیشن کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹر سے رابطے شروع کر دئیے ہیں۔30 سے 40 ارکان اسمبلی سے انفرادی سطح پر رابطے کیے گئے ہیں۔رابطے والے ارکان اسمبلی میں اکثریت ن لیگ کی ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے بھی قیادت کی سطح پر رابطے شروع ہو گئے ہیں۔چونکہ ان کی سندھ میں حکومت ہے لہذا انہیں کوئی پیشکش بھی کی جائے اور ممکن ہے کوئی ریلیف بھی دی جائے گا۔حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ن لیگ کو ارد گرد سے کمزور کیا جائے۔

یہ ارکان اسمبلی نواز شریف کے اداروں سے متعلق بیانئے سے متفق نہیں۔ارکان پارٹی کی جانب سے استعفوں کے احکامات سے انحراف بھی کریں گے۔یعنی کہ ایک دو ماہ بعد اگر اراکین کو استفعوں کے لیے کہا جائے گا تو وہ اس پر راضی نہیں ہوں گے۔اور ممکن ہے کہ انہی رہنماؤں کی ایک الگ جماعت بنے،اور شاہد یہی وہ جماعت ہو گی جس کی پیشگوئی شیخ رشید کرتے ہیں۔یہ وہ گروپ ہیں جن سے حکومت کے مسلسل رابطے ہیں۔دوسری جانب مسلم لیگ ن نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کرنے والے اپنے 5 ارکان کو پارٹی سے نکالنے کافیصلہ کرلیا ہے۔قیادت کی منظوری سے پارٹی سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی سے نکالے جانے والے اراکین پنجاب اسمبلی میں اشرف انصاری، جلیل شرقپوری، فیصل نیازی، نشاط ڈاہا اور مولوی غیاث الدین شامل ہیں۔پنجاب اسمبلی کے ارکان کے خلاف کارروائی مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ کے دستخطوں سے عمل میں آئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی ووٹنگ میں غیرحاضر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمان کے ارکان کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ایف اے ٹی ایف ووٹنگ کے دوران نہ آنے والے پارٹی ارکان سینٹ اور قومی اسمبلی کو بھی شوکاز نوٹس جاری کئے گئے ہیں جن میں راحیلہ مگسی، کلثوم پروین، دلاور خان اور شمیم آفریدی شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں