ڈی جی آئی ایس پی آکوزبیر عمر اور آرمی چیف کی ملاقات پر بیان دیکر پارٹی نہیں بنناچاہیئے تھا،مریم نواز

لاہور(نیوز ڈیسک) مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو آرمی چیف اور محمد زبیر کی ملاقات پربیان نہیں دینا چاہیے تھا،آرمی چیف اور محمد زبیر کے 40سال سے تعلقات ہیں، ان کی پرانی تصاویر بھی ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر بڑے ڈیسنٹ انسان ہیں،ان کو پارٹی نہیں بننا چاہیے تھا۔انہوں نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حضرت نے فرمایا تھا کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی، بڑا افسوسناک دن ہے، جس طرح سقوط کشمیر ہوا ہے، پہلی بار ہر گناہ کرنے کے باوجود اس حکومت

نے لیڈر اپوزیشن کو دوبارہ گرفتار کیا۔شہبازشریف کو کسی قسم کے احتساب یا الزام پر گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ ریفرنس کے درمیان گرفتار کرنا ، جیسے مجھے گرفتار کیاگیا، میرے خلاف بھی ڈیڑھ سال سے ریفرنس نہیں تھا۔مجھے نیب میں لے جاکر کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ ہم گھر میں کیا کھاتے ہیں؟ انہوں نے جو فیصلے لکھے تھے اس کے تحت گرفتار کرنا تھا، اس طرح کے فیصلے دینے والے اور میڈیا کے لوگ ، قوم جانتی ہے کہ کیوں گرفتار کیا گیا؟ جس طرح شہبازشریف کی بیٹیوں ، بیٹوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا، ان کو سز ادی گئی کہ انہوں نے اپنے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا، ان کی بیٹی، بیوی کو اشتہاری بنا دیا گیا، حمزہ شہبازکو 13مہینے جیل میں ہوگئے لیکن الزام ثابت نہیں ہوا، ان سارے اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود شہبازشریف اپنے بھائی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔مریم نواز نے کہا کہ شہباشریف نے کہا کہ اے پی سی کے اعلامیے پر 100فیصد عمل ہوگا، نوازشریف کی تقریر آئین اور قانون کے مطابق ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں اگر قانون ہے تو گرفتاری شہبازشریف کی نہیں بلکہ عاصم سلیم باجوہ کی ہونی چاہیے تھی، شہبازشریف کے نام کوئی کمپنی ، فرنچائز نہیں نکلی، شہبازشریف کے والد جانے مانے بزنس مین تھے، وسیع کاروبار تھا، تب سے تھا جب وہ سیاست میں نہیں تھے، عاصم سلیم باجوہ ایک تنخواہ دار تھے، ان کا کروڑ پتی نہیں ارب پتی ہونا قابل جرم ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نیب کی بات نہیں کرتی،سپریم کورٹ اور عدالتوں نے فیصلے دیے کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کرنے والا ادارہ ہے نیب کو عمران خان کا تین سو کنال کا گھر، بی آر ٹی، بلین ٹری منصوبہ ،جہانگیرترین کی کرپشن نظر آتی ہے۔ بات تو یہ ہے

کہ جب عاصم سلیم باجوہ کے اثاثے سامنے آئے ، ان کی بیوی گھریلو خاتون تھی لیکن نیب اور عمران خان کو وہ کیس نظر نہیں آیا؟ اگر ان کے25سال کے بچے الگ کاروبار الگ کرسکتے ہیں، تو کیا حمزہ شہبازشریف جو45سے زیادہ ہیں، وہ الگ کاروبار نہیں کرسکتے؟ یہ کس قسم کا انصاف ہے؟جس میں عدالتوں کو بلیک میل کرکے، ججز اور میڈیا پر دباؤ ڈالا گیا، میڈیا کو کہا گیا کہ عاصم سلیم باجوہ کا کیس نہیں اٹھانا، میڈیاکو کہا گیا کہ ان کے وضاحت جاری کرو۔جس پر میڈیا نے وضاحت جاری کی۔کہاجاتا ہے کہ مسلم لیگ ن اداروں کیخلاف ہے، لیکن جب آپ عدلیہ ججز کو بلیک میل کرتے ہیں اداروں کو دباؤ

میں لاتے ہیں، اس سے زیادہ اداروں کی توہین نہیں۔ مریم نوازنے کہا کہ کبھی مولانا فضل الرحمان کو نوٹس بھیجا جاتا ہے، کبھی شہبازشریف کو گرفتار کیا جاتا ہے ،لیکن کسی میں ہمت ہے عاصم سلیم باجوہ کو نوٹس بھیجے، نون میں ش نکالنے والوں کی خود چیخیں نکل گئی ہیں۔ن اور ش اکٹھے ہیں۔شہبازشریف کی اپنی ایک مفاہمتی سوچ ہے، وہ یہ بات نوازشریف سے بھی کرتے ہیں، لیکن جب نوازشریف کا فیصلہ آجاتا ہے تو وہ پھر سرخم تسلیم کرتے ہیں۔نوازشریف کے حکم پر لبیک کہنے کی ان کو یہ سزا ملی ہے۔عمران خان کو خوف ہے کہ شہبازشریف ان کے متبادل ہیں ، یہ خوف ان کو ہے کہ جن کو لایا گیا ہے

اور عوام کے سروں پر مسلط کیا گیا ہے۔شہبازشریف متبادل نہیں ہیں، پنجاب کی واحد چوائس شہبازشریف ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں اپوزیشن استعفے دے، ہم الیکشن کروا دیں گے، لیکن عمران خان کو اتنی مہلت نہیں ملے گی۔ان کو جو مہلت ملی ہے اس کو اپنی چالاکی نہ سمجھے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ گلگت بلتستان میں خالی میدان نہیں چھوڑے گی۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نوازشریف کی قیادت میں ایک ہے، ن لیگ کو توڑنے والے حسرت لے کر قبر میں چلے گئے۔نوازشریف اور شہبازشریف کے بیانیئے کی باتیں اداروں کے کچھ ناعاقبت اندیش دوست کرتے ہیں۔مسلم لیگ ن کے پاس استعفوں اور لانگ مارچ کا آپشن

ہے۔کورونا لاک ڈاؤن کے بعد نوازشیرف اپنا علاج کروا کے پاکستان آئیں گے۔ نوازشریف بہت جلدواپس آئیں گے، نوازشریف پوری قوت سے پارٹی کو لیڈ کریں گے، اس عمر میں نوازشریف کیلئے باہررہنا مشکل ہے، جس کی بیوی، والد کی قبر پاکستان میں ہے، ان کا ملک سے باہر رہنا بڑا مشکل ہے، نوازشریف کو سیاست سے باہر کرنے والے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ میں نے طلال چودھری سے پوچھا نہ انہوں نے مجھے بتایا، ان کا ذاتی معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ محمد زبیر کی آرمی چیف سے ملاقات سیاسی نہیں ذاتی نوعیت کی تھی۔محمد زبیر کے آرمی چیف سے 40سال سے تعلقات ہیں،

ان کی پرانی تصاویر ہیں، وہ دوست ہیں۔ محمد زبیر کی ملاقات کو غلط رنگ نہیں دینا چاہیے۔انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ نہیں کہا کہ محمد زبیر مریم نواز اورنوازشریف کے کہنے پر ملنے آئے، انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو ذاتی ملاقات پر بیان نہیں دینا چاہیے تھی، ان کو بڑی سنجیدہ ، قومی سلامتی کی چیزوں پر بیان دینے چاہئیں، ڈی جی آئی ایس پی آر بڑے ڈیسنٹ انسان ہیں،ان کو پارٹی نہیں بننا چاہیے تھا، ذاتی ملاقات کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ محمد زبیر کی آرمی چیف سے چار گھنٹے ملاقات ہوئی، جب وہ اکٹھے کھانا کھائیں گے، تو نوازشریف اور مریم نواز پر بات تو ہوگی کیونکہ وہ مسلم لیگ ن کے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں