ماحولیات کا عالمی دن اور پاکستان

آج ماحولیات کا دن ہے لیکن دل رنجیدہ ہے، بنی نوع انسان کی سرگرمیوں کی وجہ سے کرہ ارض تباہی کے دہانے پر ہے، ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہر سال 90 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہورہے ہیں ، آلودگی کی وجہ سے ہونیوالی اموات نے ٹریفک حادثات، ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا اور ٹی بی سے ہونے والی مجموعی اموات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ، ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہر سال 4 اعشاریہ 6 ٹریلین نقصان ہورہا ہے ، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونیوالے ممالک میں سرفہرست ہے، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سالانہ 4 سے 6 ارب ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے ، ہمارے شہروں میں سموگ بڑھ رہی ہے ، درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے اور گلئیشرز پگل رہے ہیں ، یونیورسٹی آف شکاگو کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط 9 ماہ کی کمی ہورہی ہے

ہر شخص کو گھر اور گاڑی چاہیے، ہم کنکریٹ کے شہر آباد کررہے ہیں اور سبزہ ختم کرتے جارہے ہیں، سڑکوں پر گاڑیوں کے باعث رش بڑھ گیا ہے ، پارکنگ کم پڑ گئی ہے ، اگر ہم اسلام آباد کو ہی دیکھ لیں تو کشمیر ہائی وے کو سگنل فری کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی گاڑیوں کی لمبی لائنز لگناشروع ہوگئی ہیں ،آج یہ صورتحال ہے تو آنے والے سالوں میں کیا ہوگا؟ حال ہی میں ہونیوالے واقعات نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مزید واضع کردیا ہے ، گرمی کی شدید لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس سال مارچ میں 12 سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹا اور کراچی میں درجہ حرارت 42 اعشاریہ 5 ڈگری تک پہنچا، اپریل اور مئی میں ہیٹ ویو کے باعث کئی علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی تجاوز کرگیا، محکمہ موسمیات نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مارچ سےلیکر مئی تک ہیٹ ویو کی دو لہریں قیامت ڈھاتی رہیں لیکن ان سے نمٹنے کیلئے کوئی انتظام نہیں تھا، محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال معمول سے 21 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں اور گرمی کی شدید لہر اور پانی کی کمی کے باعث چاغی، کھاران ، نوشکی اور واسک کے اضلاع میں قحط سالی کا خدشہ ہے ، مئی کے آغاز میں ہنزہ میں ششپر گلئیشر پگلنے سے حسن آباد نالے پر واقع پل دریا برد ہوگیا، جس سے شاہراہ قراقرم میں آمد و رفت معطل ہوگئی، گلئیشر پگلنے سے مقامی افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے
ملک میں پانی کے بحران نے 22 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے ،آبی ذخائر میں پانی کی کمی 97 فیصد ہوگئی ہے اور صوبوں کو 50 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے،
ربیع سیزن کے دوران معمول سے کم بارشوں اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی زرعی پیداوا ر بھی متاثر ہورہی ہے ، ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث 30 لاکھ ٹن گندم کم پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ہیٹ ویو کے باعث آم کی پیداوار بھی 30 فیصد کم ہوئی ہے اور دیگر فصلیں بھی متاثر ہوئی ہیں ، ارسا رپورٹ کے مطابق ملک کے دیگر علاقوں میں ہیٹ ویو ہے لیکن گلگت بلتستان میں گزشتہ سال کی نسبت کم درجہ حرارت ہے شمالی علاقوں میں گزشتہ سال درجہ حرارت 31 ڈگری سنٹی گریڈ تھا آج 21 ڈگری سنٹی گریڈ ہے، دریائے جہلم میں پانی کی کمی کے باعث منگلا ڈیم آدھا بھی نہیں بھر پائے گا، ارسا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ منگلا ڈیم میں ربیع سیزین کیلئے بھی پانی نہیں ہوگا

ملک کے مختلف علاقوں میں جنگلات آگ کی لپیٹ میں ہیں، کوہ سلیمان میں ہزاروں ایکڑ پر واقع چلغوزے کے نایاب جنگلات آگ کے باعث جل کرراکھ ہوگئے،کسی انسان کی ذرا سی لاپروائی نے جنگل اور جنگلی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا، آگ بجھانے کیلئے جہاز ایران سے منگوانا پڑا، واقفان حال بتاتے ہیں کہ آگ بجھانے کیلئے ایران طرز کے دو جہاز پاکستان کے پاس موجود تھے لیکن انہیں کسی اور مقصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ، ایران کا جہاز تو آگیا لیکن کوئٹہ ایئرپورٹ کے رن وے پر کام چل رہا تھاجس کے باعث جہاز کو اسلا م آباد سے پانی بھر کرلیجانا پڑا، سوات شانگلہ کے جنگلات آگ کی لپیٹ میں ہیں، کہوٹہ کے جنگلات میں دو روز قبل لگی آگ بجھائی نہیں جاسکی ، مارگلہ کی پہاڑیاں اس سیزن میں پانچویں یا چھٹی بار آگ کی لپیٹ میں آچکی ہیں، گزشہ رو ز سی ڈی اے کا عملہ رات 2 بجے تلہاڑ اور سوہاوہ کے مقام پر آگ بجھا کر واپس لوٹا تھا تو آج صبح معلوم پڑا کہ ٹریل تھری کے اطرا ف جنگلات میں آگ لگی ہے، یہاں پرانفرادی اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، حکومتی سطح پر شہریوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق آگاہی فراہم کی جانی چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹ کا جامع نظام ہو تاکہ شہری اسے استعمال کریں اور سڑکوں پر گاڑیوں کا رش کم ہو، شہریوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے حصے کا دیا جلائیں ، اگر جنگلات میں لگنے والی آگ کی روک تھام کیلئے ہی اقدامات کرلیے جائیں اور شہری بھی احتیاط سے کام لیں تو ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مزید شدید ہونے سے بچا سکتے ہیں ، اسی طرح ہمیں پانی کے استعمال میں بھی احتیاط برتنی ہوگی، بڑے نہیں تو چھوٹے ڈیمز بنانے ہونگے تاکہ پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے

اپنا تبصرہ بھیجیں