ڈی چوک پر کیا ہوا؟

گزشتہ روز باقی کچھ رپورٹرز کی طرح میرا لانگ مارچ کی کوریج کا تجربہ بھی کوئی بہت خوشگوار نہیں رہا، ہم بنی گالہ اور بھارہ کہو میں ڈیوٹی پر مامور تھے، خیال تھا کہ شائد آزاد کشمیر اور مری سے قافلے بھارہ کہو کے راستے آئیں تو ان کی کوریج کریں، لیکن ایسا نہ ہو سکا، انتظامیہ نے جی ٹی روڈ کو بھارہ کہو ٹول پلازہ پر ٹرک کھڑے کرکے ٹریفک کو بلاک کررکھا تھا، یہی  صورتحال موٹروے کی تھی جہاں ٹول پلازہ سے اسلام آباد میں داخلے کی اجازت نہیں تھی، بھارہ کہو بازار گزر کر بنی گالہ کورنگ روڈ کے قریب مری روڈ کو پھر کنٹینرز رکھ کر بند کیا گیا تھا، ہم نے بنی گالہ اور بھارہ کہو سے شہریوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں رپورٹ کیا اور شام 6 بجے واپس لوٹنے لگے تو دفتر سے ہدایات ملیں کہ ڈی چوک پر کچھ کارکنان پہنچے ہیں وہاں کی صورتحال پر نظر مارتے  ہوئے  دفتر آجائیں، جونہی ہم بلیو ایریا پہنچے پریڈ گراونڈ میڑو اسٹیشن کے قریب پولیس اور مظاہرین کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری تھی، پولیس آنسو گیس کی شیلنگ کررہی تھی اور مظاہرین مسلسل پولیس پر پتھراو کررہے تھے، فضل الحق روڈ اور ناظم الدین روڈ کے اطراف بھی مظاہرین موجود تھے، مظاہرین آنسو گیس کی شیلنگ کے اثرات کم کرنے کیلئے جھاڑیوں اور گرین بیلٹ کو آگ لگا رہے تھے، مظاہرین میں سے کچھ شرپسند نوجوانوں نے پریڈ گراونڈ میٹرو اسٹیشن سے ملحقہ دکانوں کی پارکنگ میں آگ لگا دی ، آگ پھیلنے کا خدشہ ہوا تو پولیس اور رینجرز نے آگے بڑھ کر آگ بجھائی، شائد وہ فائر بریگیڈ کی گاڑی کا انتظار کرتے تو کئی دکانیں جل کر راکھ ہو چکی ہوتیں ، حالانکہ کہ ایسی صورتحال میں فائر بریگیڈ یا واٹر کینن کو پولیس کے ساتھ ہونا چاہیے، اگر ایسا ہوتا تو گزشتہ روز میٹرو ٹریک پر لگے کئی قیمتی درخت جل کر کوئلہ نہ ہوتے، بہرحال بلیو ایریا میں مظاہرین کی تعداد بڑھی تو پولیس بھی پسپائی پر مجبور ہوئی، پولیس ڈی چوک پر منتقل ہوئی اور خار دار تاروں اور کنٹینرز کے پیچھے چلی گئی، مظاہرین مسلسل پیشقدمی کررہے تھے اور انہوں نے ڈی چوک پر کھڑے کنٹینرز کو ہٹانے کیلئے زور آزمائی شروع کردی، جس کے بعد پولیس نے ایک بار پھر شیلنگ شروع کردی ، اب کے بار شیلنگ پہلے جیسی نہیں تھی ، اتنی شدید شیلنگ میں نے ایک سال قبل سرکاری ملازمین کے احتجاج کے دوران دیکھی تھی یا اب دیکھی، میں پولیس کی طرف کھڑا تمام مناظر کو موبائل کے کیمرے میں محفوظ کررہا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان نے ایمبسی روڈ کی طرف لگے کنٹینرز کو ہٹانے کی کوشش کی،میں اس کی فوٹیج بنانے کیلئے آگے بڑھا تو اچانک سے دو تین شیل کنٹینرز کے ارد گرد گرے، میں حالانکہ کنٹینرز سے کچھ فاصلے پر تھا اور میں نے ماسک بھی پہن رکھا تھا لیکن زہریلی گیس منہ سے فورا گلے میں لگی اور سانس لینا مشکل ہوگیا ، میں نے بھاگتے ہوئے ایک طرف جانے کی کوشش کی لیکن راستے میں گرین بیلٹ پر گر گیا، وہاں ایک دو مظاہرین تھے میرے منہ سے بس پانی کی فریاد نکل سکی، لیکن پانی موجود نہیں تھا اور مجھے لگا کہ اگر کچھ دیر میں پانی نہ ملا تو شائد میں بے ہوش ہوجاوں، پی ٹی آئی کے کارکن نے بسکٹ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کھائیں گلے سے اس گیس کا اثر ختم ہوجائے گا تو آپ ٹھیک ہوجائیں گے، میں نے ایسے ہی کیا ، بسکٹ کھانے کے بعد اس قابل تو ہوا کہ اس سائیڈ پر جاکر بیٹھ سکوں لیکن شیلنگ کے باعث آنکھ سے پانی رک ہی نہیں رہا تھا، اور نجانے شیل کتنے پرانے تھے کہ آنکھوں میں جلن ایسی تھی کہ بھرپور کوشش کے باوجود بھی آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں، کوئی پندرہ سے بیس منٹ کے بعد کچھ آنکھیں کھلیں تو ایک پی ٹی آئی کارکن کے پاس پانی کی بوتل دیکھی، اس سے پانی لیکر چہرے پر پھینکا تو کچھ دیر بعد بہتر محسوس کرنے لگا آنکھیں کھول کر گاڑی کے پاس پہنچا تو پتہ چلا کہ ہمارے کیمرہ مین شہزاد احمد فوٹیج بناتے ہوئے شیلنگ کے باعث بے ہوش ہوگئے تھے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ ڈی چوک پر قافلوں کی آمد کی فوٹیج بنا رہے تھے کہ پولیس نے بھاری کی زد میں آگئے، یہ ہم دونوں کی صورتحال تھی، کئی اور میڈیا کے نمائندگان بھی موجود تھے کوریج کے دوران جن کی طبعیت ناساز ہوئی، لیکن ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے کارکنان اس شدید شیلنگ کے باوجود نہ صرف ڈٹے ہوئے تھے بلکہ پولیس کو ٹف ٹائم دے رہے تھے، بطور صحافی شاید میرا خیال تھا کہ عمران خان کو وہ طبقہ سپورٹ کرتا ہے جو باقی سیاسی کارکنان کی طرح مزاحمت کی صلاحیت نہیں رکھتا، کل میرا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے جب تحریک انصاف کے جلسے کیلئے حکومت کو ایچ نائن میں جگہ مختص کرنے کا کہا اور رکاوٹیں ہٹانے کا کہا تو اس کے بعد حکومت نے بھی نرمی برتی اور کارکنان کو آگے آنے دیا، یہ بات درست بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ہم دن سارا بنی گالہ اور بھارہ کہو میں دنداتے پھرے، ہم خان صاحب کی رہاشگاہ کے قریب بھی گئے لیکن ہمیں دونوں علاقوں میں ہمیں کوئی کارکن بھی نظر نہیں آیا، پولیس کے چھاپوں کے باعث پی ٹی آئی ایکٹیوسٹ اتنے خوفزدہ ہوچکے تھے کہ بہت سے سرگرم کارکنان تین سے چار روز سے اسلام آباد چھوڑ کر کہیں اور روپوش تھے،سرینگر ہائی وے اور زیرو پوائنٹ پر کھڑے رپورٹرز کا بھی یہی کہنا ہے کہ پانچ بجے سے پہلے جو اکا دکا کارکنان آئے انہیں پولیس نے بھاگنے پر مجبور کردیا ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کے بعد حکومتی ڈھیل کے باعث کارکنان آگے آنے میں کامیاب ہوئے تو پھر فیض آباد میں کیا ہورہا تھا جہاں کارکنان پانچ گھنٹے تک پولیس کی شیلنگ کا مقابلہ کرتے رہے، حتی کہ پولیس کے پاس شیل کم پڑ گئے تو پولیس پسپائی پر مجبور ہوئی، یہی صورتحال ڈی چوک پر تھی، ڈی چوک پر پولیس کے پاس شیل کم ہوئے تو اہکار پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے، تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنما شدید شیلنگ کے باوجود ڈی چوک پر ڈٹے رہے کیونکہ خان صاحب نے انہیں ڈی چوک پر پہنچنے کی ہدایت کی تھی، اگرچہ پی ٹی آئی کارکنان نے درخت جلا کر اور املاک کو نقصان پہنچا کر غلط کیا لیکن انہوں نے مزاحمت کی ایسی مثال قائم کی کہ ناقدین کے منہ بند کردیئے، شدید شیلنگ کے باوجود رات 8 بجے سے لیکر صبح 7 بجے تک ڈی چوک پر تحریک انصاف کے کارکنان کا کنٹرول تھا اور پولیس اہکار اور رینجرز ریڈ زون کے اندر چلے گئے تھے، اب کارکنان اپنے قائد کا انتظار کررہے تھے ، صبح ساڑھے سات بجے جب میں ڈی چوک پر دوبارہ ڈیوٹی کیلئے پہنچا تو بہت سے کارکنان ہماری گاڑی کے پاس آکر پوچھتے رہے کہ خان صاحب کا قافلہ کہاں پہنچا اور قافلہ کب ڈی چوک پہنچے گا، کچھ دیر بعد جب ہمیں خبر ملی کہ خان صاحب نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کرکے حکومت کو 6 دن کی مہلت دیدی ہے تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی، اچانک کیا ہوا کہ خان صاحب نے ڈی چوک پہنچنے سے پہلے ہی اسٹاک ایکسچینج میٹرو اسٹیشن کے قریب صبح ساڑھے سات سے پونے آٹھ بجے کے لگ بھگ کارکنان سے خطاب کیا اور چلتے بنے؟ ہم سے زیادہ حیرت میں تحریک انصاف کے کارکنان تھے، بہت سارے کارکنان ہم سے پوچھتے رہے خان صاحب ڈی چوک تک آئیں گے؟ کچھ نہ گلہ کیا کہ ہم ساری رات شیلنگ برداشت کرتے رہے خان صاحب کو یہاں آنا چاہیے تھا، کچھ کارکنان حسرت و یاس کی تصویر بنے جناح ایونیو کو دیکھتے رہے، کل مجھے پہلی بار سیاسی کارکنان پر ترس بھی آیا، خان صاحب خطاب ختم کرنے کے بعد کنٹینر سے اترے گاڑی پر بیٹھے اور ڈی چوک سے ہوتے ہوئے خیبرپختونخواہ ہاوس روانہ ہوا لیکن اتنا نہ کیا کہ رک کر ان کارکنان کا شکریہ ہی ادا کر جاتے جو ساری رات شیلنگ برداشت کرتے رہے، جو ملک کے طول و عرض سے رکاوٹیں توڑ کر ڈی چوک پہنچے، اگر خطاب نہیں کرسکتے تھے تو کم از کم رکتے اور کارکنان کو ہاتھ ہی ہلا جاتے، لیکن ایسا نہیں ہوا

اچانک کیا ہوا کہ خان صاحب نے فیصلہ تبدیل کیا اور طویل دھرنے کے اعلان کے باوجود جلسہ کرکے واپس روانہ ہوگئے، شہباز گل کے ٹویٹ کے مطابق عمران خان رات 1 بجے کے لگ بھگ گولڑہ موڑ پر پہنچ گئے تھے، اس کے بعد آدھے گھنٹے کا سفر ساڑھے 6 گھنٹے میں طے ہوا ، واقفان حال کا کہنا ہے رات دو بجے کے بعد کا وقت تھا جب عمران خان کنٹینر سے اترے اور لانگ مارچ کو چھوڑ کر کہیں ملاقات کیلئے روانہ ہوئے اور ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد پھر قافلے کا حصہ بن گئے ، بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہی وہ وقت تھا جب عمران خان کو تک پیغام پہنچایا گیا اور انہیں مارچ ختم کرنے پر راضی کیا گیا، لیکن سمجھ نہیں آئی کہ اگر عمران خان نے فیصلہ سازوں کو مذاکرات پر مجبور کیا اور ان کے چاہنے والوں کے مطابق عمران خان نے اپنی بات منوائی تو پھر انہیں مارچ ڈی چوک سے 2 کلو میٹر پہلے ختم کرنے کی کیا ضرورت تھی، یا انہیں کس چیز کا ڈر تھا کہ وہ کنٹینر سے فوری گاڑی پر منتقل ہوئے اور وہاں سے خیبرپختونخوا ہاوس گئے اور وہاں سے فوری بنی گالہ روانہ اور بنی گالہ سے فوری طور پر پشاور منتقل ہوگئے، یہ بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا 

اپنا تبصرہ بھیجیں