افغانستان کے لیے پاکستان کی طرف سے امداد

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) افغانستان چار دہائیوں سے تنازعات کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے ریاستی اداروں، معیشت اور سیکورٹی کے آلات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، تاہم، یہ اپنی جغرافیائی خودمختاری کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا، لیکن ایک فعال ریاست کے طور پر جاری نہیں رہ سکا۔حال ہی میںٹی ٹی اے نے افغانستان میں ایک عبوری حکومت تشکیل دی ہے لیکن بدلتی ہوئی صورتحال نے غیر یقینی حالات پیدا کردئے ہیں۔جس کے نتیجے میں سنگین ملکی اور علاقائی مضمرات کے ساتھ افراتفری پھیل سکتی ہے۔ افغانستان میں تبدیلی کے ان نازک لمحات میں عالمی برادری افغانستان میں ناکامی کی وجہ سے لاحق خطرات سے غفلت برت رہی ہے۔ افغانستان کے 9.5 بلین ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کرنے اور امریکہ کی طرف سے متعدد دیگر پابندیوں نے افغانستان کی پہلے سے گرتی ہوئی سماجی اقتصادیات کو مزیدگرا دیا ہے۔ ریاستی اداروں کو چلانے اور مسلح افواج کو برقرار رکھنے کے لیے مطلوبہ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث عبوری افغان حکومت کے لئے ایک سنگین چیلنج بن گیا ہے۔

TTA کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کے بعد عالمی برادری کی طرف سے چند معاشی قسطوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر امداد نہیں دی گئی۔ پاکستان نے اپنے چیلنجوں اور کمزور معیشت کے باوجود افغانستان کو ضروری اشیاء کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور افغانستان میں بڑھتے ہوئے بحران کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششوں کو بھی تقویت دی ہے۔ستمبر 2021 سے، پاکستان نے افغان بھائیوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی ہے جس میں 4681 ٹن راشن آئٹمز (1800میٹرک ٹن گندم، 1403 ٹن آٹا، 76 ٹن کوکنگ آئل، 361 ٹن چینی، 372 ٹن چاول، 56 ٹن دالیں، 2 ٹن نمک) 2.8 ٹن بسکٹ، 2.3 ٹن چائے، 7.1 ٹن پھلیاں، 4.4 ٹن پاستا، 1.70 ٹن ٹماٹر کا پیسٹ، 3 ٹن چنا، 406 ٹن فیملی راشن پیک)، 203 ٹن ادویات، 25 ٹن گھریلو ساز و سامان، 7.5 ٹن سکول آئٹمز، 260 ٹن خیمے، 179 ٹن موسم سرما کے بستر اور 121 ٹن موسم سرما کے کپڑے شامل ہیں۔ پاکستان افغانستان میں بدلتے ہوئے منظر نامے اور سفارتی میدان میں اس کے اثرات اورمسائل کو فوری طوردور کرنے کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے عالمی حلقوں کو اتفاق رائے پر لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

اس مقصد کے لیے پاکستان نے حال ہی میں اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے ایک غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کی جس میں مسلم ممالک کے مندوبین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔پاکستان کی انتھک کوششوں کی وجہ سے افغانستان پر عالمی برادری کے سخت موقف کی برف پگھل رہی ہے اور امریکہ نے غیر سرکاری تنظیموں کو اس ملک میں کام کرنے اور اپنے معمول کے لین دین کی اجازت دے دی ہے۔ افغانستان کو ایک فعال ریاست کے طور پر برقرار رکھنے میں مدد کرنے کے لیے اقدامات کرنے میں وقت کی اہمیت ہے کیونکہ مزید تاخیر کے نتیجے میں عسکریت پسند تنظیمیں اس خلاکو مکمل کرسکتی ہیں جونہ صرف علاقائی امن بلکہ عالمی امن کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔

پاکستان اکیلے خطے میں پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نبردآزما نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری ذمہ داری کا بوجھ بانٹیں اور عالمی کوششوں کو آگے بڑھانے میں پاکستان کی مدد کریں اور ایک یقینی بحران سے بچنے میں مدد کریں۔ افغانستان میں ڈرامائی تبدیلی یا کوئی بھی غلطی افغانستان کے لوگوں اور بالعموم دنیا کے لیے سنگین مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں