جسم فروشی کیلئے انسانوں کی اسمگلنگ سے سو ارب ڈالر سالانہ کمائے جانے کا انکشاف

ہوانا(نیوز ڈیسک)دنیا بھر میں جنسی استحصال اور جبری جسم فروشی کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ سے جرائم پیشہ گروہوں کو سالانہ تقریبا سو ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف اتحاد نامی بین الاقوامی پلیٹ فارم کی 21 ویں کانفرنس آسٹریا میں تین روز تک جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوگئی ، اس کانفرنس میں یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم اوایس سی ایکی طرف سے اس کے خصوصی مندوب اور ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے رابطہ کار ویلیئنٹ رِچی نے حصہ لیا۔ویلیئنٹ رِچی نے انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے اور اس بین الاقوامی کانفرنس کے

حوالے سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہیومن ٹریفکنگ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کی وجہ سے ایک پوری سیاہ معیشت جنم لے چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو ایسی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے زیادہ بھرپور اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے اس خصوصی مندوب نے بتایا کہ مختلف براعظموں میں جرائم پیشہ گروہ ہر سال جن بے شمار عورتوں اور بچوں کو جبری جسم فروشی کے لیے دوسرے شہروں یا ممالک میں اسمگل کر دیتے ہیں، ان سے انہیں تقریبا 100 ارب ڈالر کے برابر آمدنی ہوتی ہے۔ویلیئنٹ رِچی کے مطابق یہ رقم امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کارپوریشن کو ہونے والے سالانہ منافع کے تقریبا برابر بنتی ہے اور اس سالانہ ناجائز کمائی کے حجم سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر جنسی استحصال کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ کتنا بڑا اور شدید مسئلہ ہے۔او ایس سی ای کے ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے ذمے دار کوآرڈینیٹر نے اس انٹرویو میں کہا کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے لیے یہ اس لیے بہت پرکشش کاروبار ہوتا ہے کہ انہیں اسمگل شدہ افراد کو جنسی غلاموں کے طور پر بیچنے کے عوض بہت بڑی بڑی رقوم ملتی ہیں۔ن دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے

روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔ویلیئنٹ رِچی کے الفاظ میں ایسے بے بس اور اسمگل شدہ انسانوں سے جبرا جسم فروشی کرانے والوں کو بھی علم ہوتا ہے کہ جب تک ان کے ہاں آنے والے مرد جنسی خدمات کے لیے مالی ادائیگیوں پر تیار ہیں، انہیں مسلسل کمائی ہوتی رہے گی۔انہوں نے کہا کہ ایسی جسم فروشی اب صرف کسی بھی ملک یا شہر میں مخصوص جگہوں پر ہی نہیں ہوتی بلکہ جنسی خدمات کی یہ ناجائز خرید و فروخت زیادہ سے زیادہ آن لائن بھی ہونے لگی ہے۔ایسی ہزاروں ویب سائٹس ہیں، جن کے ذریعے مجرمانہ کاروبار کے طور پر درپردہ لیکن ویسع پیمانے پر انسانوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے صرف انسانی معاشروں میں ہی نہیں بلکہ سائبر ورلڈ میں بھی سخت، مربوط اور نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں