تنویر الیاس بمقابلہ روایتی سیاسی مافیا ۔۔۔ تحریر: انجینئر اصغرحیات

سیاست راستہ نکالنے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کا نام ہے، سیاست عوام کو درپیش مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے ان کو دور کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کا نام ہے، پارلیمان کا کام قانون سازی ہے، حکومتوں کا کام اس قانون سازی کے ذریعے عوام تک آسانیاں پہنچانا ہے، آزاد کشمیر چھوٹا سا خطہ ہے لیکن یہاں مسائل کے انبار ہیں، 5 ہزار مربع میل پر پھیلے اس علاقے کو اللہ تعالی نے ہر نعمت سے نوازا ہے، پورے ملک میں سب سے زیادہ شرح خواندگی یہاں پر ہے، 16 لاکھ کشمیری بیرون ملک مقیم ہیں جو نہ صرف اربوں ڈالرز بھیجتے ہیں بلکہ ان ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں ،

آزاد کشمیر کے حکمران ہر وقت بیرون ملک دوروں میں مصروف نظر آتے ہیں، صدر ریاست لوٹتے ہیں تو وزیر اعظم بیرون ملک پہنچ جاتے ہیں، وہ آتے ہیں تو کابینہ کے وزراء ، یہ سلسلہ سال کے بارہ مہینے جاری رہتا ہے، بیرون ملک کشمیر کانفرنسوں میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات کرنے کے علاوہ شاید ذاتی بزنس اور تعلق بڑھانے کی بات ہوتی ہے، بات نہیں ہوتی تو شاید آزاد خطے کی نہیں ہوتی، یہاں کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی کس نے لینی ہے، بیرون ملک مقیم کشمیریوں ، سرمایہ داروں کو کس نے مدعو کرنا ہے، پچھلے دنوں اسلام آباد چیمبر میں ہونیوالی ٹوارزم کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، اسلام آباد چیمبر کے صدر سردار یاسر الیاس جو معاون خصوصی پنچاب سردار تنویر الیاس کے بھائی ہیں انہوں نے پاکستان بھر کے چیمبر آف کامرس کے صدور اور صدر آزاد کشمیر کو بھی مدعو کررکھا تھا، موضوع تھا آزاد کشمیر میں سیاحت کے مواقع، سردار یاسر الیاس نے ڈرون سے بنائی ویڈیو سکرین پر دکھائی اور چیمبر آف کامرس کے صدور سے کہا کہ آپ آزاد کشمیر میں سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں، ساتھ ہی صدر آزاد کشمیر سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ اگر یہ بڑے سرمایہ دار آزاد کشمیر میں سرمایہ کاری کریں تو آزاد حکومت ان کو کیا مراعات دے گی؟ سردار یاسر الیاس کا طرز عمل دیکھ کر خوشی ہوئی، جو کام وہ کررہے ہیں وہ آزاد حکومت کے کرنے کے ہیں ،آزاد کشمیر کی حکومت ٹوارزم کانفرنس بلاتی ، ملک بھر سے سرمایہ کاروں کو مدعو کرتی، بیرون ملک مقیم کشمیریوں کی مدد لیتی ،

مراعات کا اعلان کرتی تو کیا نہیں ہوسکتا تھا؟ چند سال قبل کی بات ہے ہم نے آزاد کشمیر کی سب سے پہلی یوتھ اسمبلی کی بنیاد رکھی، پلندری ایک ایونٹ میں شرکت کیلئے گئے، ہمارے ساتھ یوتھ اسمبلی کے برطانیہ کے ایمسٹڈر زوہیب خان تھے، پلندری کے جنگلات سے گزرتے ہوئے زوہیب خان کہنے لگے یقین کریں اس جگہ اور سوئزر لینڈ میں کوئی فرق نہیں ہے، فرق ہے تو انفراسٹریکچر کا ، روڈز اچھی ہوں، سڑک کنارے جگہ جگہ بیٹھنے کیلئے بوتھ ہوں، اچھے ہوٹلز ہوں، تفریح گاہوں کو اچھے طریقے سے ڈویلپ کیا گیا ہو تو ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرسکتے ہیں، جنت نظیرکشمیر کے درجنوں سیاحتی مقامات ایسے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں،

صرف یہی ایک شعبہ ہے جس کے ذریعے آزاد کشمیر معیشت اپنے پاوں پر کھڑی ہوسکتی ہے، لیکن یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ لیڈرشپ ویژن رکھتی ہو، ترقی کی سوچ رکھتی ہو، ایک سوچ سے ہی آن لائن ٹیکسی سروس وجود میں آئے تھی ، ایک ایپ سے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار کا موقع مل سکتا ہے تو پھر کیا نہیں ہوسکتا، راستے نکل آتے ہیں، شرط یہ ہے کہ کوئی راستہ نکالنے والا ہو، اسی طرح آزاد کشمیر میں پن بجلی کی صلاحیت 50 ہزار میگاواٹ سے 75 ہزار میگاواٹ ہے، پن بجلی کے اکا دکا منصوبے لگ رہے ہیں اور کمپنیوں کو مقامی انجینئرز اور ملازمین رکھنے کا پابند نہیں کیا گیا،

جس کی وجہ سے مقامی انجینئرز بے روزگار ہیں، آزاد کشمیر کے نوجوانوں کی اکثریت یا تو بے روزگار ہے یا بیرون ملک ملازمت کرنے پر مجبور ہے، چھوٹی صنعتین لگا کر ریاست کو اپنے پاوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ روایتی سیاستدان ہیں، کرپٹ مافیا کا گٹھ جوڑ ہے، اول تو یہ کہ کوئی منصوبہ منظور ہوتا ہے تو سیاستدانوں کے رشتہ داروں اور بیوروکریٹس کے رشتہ داروں کے نام پر کمپنیاں ہیں جو ٹینڈرز پر ٹینڈرز لینے میں کامیاب ہوتی ہیں، کسی کا چچا کسی کا ماما پروجیکٹ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور پھر اس منصوبے کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے سب ہی جانتے ہیں،

کبھی ٹھکیدار بھاگ جاتا ہے تو کبھی کچھ، نتیجہ بڑی مشکل سے اگر سالوں بعد منصوبہ تکمیل کے تک پہنچے تو وہ مکمل ہونے سے قبل آدھا خراب ہو چکا ہوتا ہے، یہاں کوئی سرمایہ دار کسی منصوبے میں پیسے لگانا چاہتا ہے تو اسے روکنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے، اگر وہ کسی طرح منصوبہ لینے میں کامیاب ہوجائے تو اس کا وہ حال کیا جاتا ہے کہ وہ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوجاتاہے، آزاد کشمیر کے دو بڑے مسائل ایک لیڈر شپ کا ویژن نہ ہونا اور دوسرا سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرنا ہے ۔سردار تنویر الیاس کے آزاد کشمیر کی سیاست میں قدم رکھتے ہی آزاد کشمیر کی سیاست میں بھونچال آگیا ہے، انہوں نے تین حلقوں باغ، راولاکوٹ اور نیلم سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا کیا، سیاسی مافیا ان کے پیچھے پڑ گیا ہے، وہ لوگ جنہوں نے سیاست کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے، جن کے نزدیک اصول اور نظریے کی کوئی اہمیت نہیں، جو کرسی اور جھنڈی کی لالچ میں درجنوں پارٹیاں تبدل کرچکے ہیں وہ بھی سردار تنویر الیاس پر تنقید کررہے ہیں، آپ سوچ رہے ہونگے اس مافیا کو مسئلہ کیا ہے، اس مافیا کو مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے سیاست کو بزنس بنا لیا ہے، ان کا اوڑھنا بچھونا سیاست ہے، ان سے پوچھو ان کے بچے کیا کام کرتےہیں، کسی کے پاس کوئی جواب نہیں، کمانے کے کیا ذرائع ہیں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں، یہ سیاست سے ہی اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں، پانی ، بجلی، سڑکوں کی سکیمیں چوری کرکے جائیدادیں بناتےہیں، ظاہر ہے کوئی ایسا شخص سیاست میں آئے جس کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہو،

جو کہے سیاست سے کمانا نہیں سیاست میں آکر عوام پر لگانا ہے، اپنی جیبیں نہیں بھرنی عوام پر خرچ کرنا ہے، اسکیمیں چوری نہیں کرنی میرٹ پر دینی ہیں، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرنی ہے، ایسا شخص تو اس مافیا کیلئے چیلنج ہوگا، یہ مافیا کبھی لوگوں کو برادری کی بنیاد پر اکسائے گا، کبھی علاقے کی بنیاد پر، لیکن اب لوگ سمجھدار ہوچکے ہیں ، لوگ برادری ازم ، علاقائیت کو نہیں دیکھتے ترقی کو دیکھتے ہیں، لوگ دیکھتے ہیں کون ان کیلئے کیا کرسکتا ہے، کس کے پاس ترقی کا پروگرام اور روڈ میپ ہے اور کون کھوکھلے نعروں پر الیکشن لڑ رہا ہے،

بیرسٹر سلطان کی بوکھلاہٹ بتا رہی ہے کہ اس کی دکان بند ہونے جارہی ہے، بیرسٹر سلطان بے شک پرانا ہے اس نے پارٹی کیلئے کام بھی کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان الیکشن میں بھرپور کامیابی کے باوجود وہ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کو رن وے پر لانے میں ناکام رہے، ٹیک آف تو دور کی بات ہے ،بیرسٹر کے قریبی ساتھی بھی اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ حکومت بنانا تو دور کی بات تحریک انصاف اب تک 12 نشستوں سے زائد پر کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں، ایسی صورت میں وزیر اعظم عمران خان نے سردار تنویر الیاس کو میدان میں اتارا ہے، انہیں پارٹی کو مظبوط کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے، بیرسٹر سلطان کو چاہیے کہ ان کے ساتھ چلیں، اوچھے ہتھکنڈوں کے بجائے پارٹی کو مظبوط کریں، کیوں کہ تنویر الیاس اب سیاست میں آگئے ہیں اور انکو سیاسی افق پر چھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں