احسان اللہ احسان کا فرار ہونا ادارے کیلئے شرمندگی کا مقام ہے ،سابق جنرل

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) گذشتہ روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر بابر افتخار کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں ایک سے زائد افراد ملوث ہیں۔ صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان فوجی تحویل سے فرار ہوئے تھے جنہیں چارج کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں چند افراد ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی کی گئی۔اس واقعے میں ملوث افراد کی تعداد نہیں بتا سکتے۔ اسی حوالے سےتجزیہ پیش کرتے ہوئے میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ اتنے اہم قیدی کا فرار ہو جانا ادارے کے لیے شرمندگی کا مقام ہے،

خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کی نگرانی میں قیدی موجود تھا،دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، بڑی بڑی افواج میں اور ہماری اپنی افواج میں بھی ایسے قیدی رہے ہیں جو بھاگ گئے ہیں۔1971 ء کی جنگ میں جو ہمارے جنگی قیدی تھے وہ بھارت سے بھاگ کر پاکستان پہنچ گئے تھے تو قیدیوں کا فرار ہوجانا نا ممکنات میں سے نہیں ہے۔لیکن یقینا یہ ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔احسان اللہ احسان کے فرار سے ادارے کو شرمندگی اور ہزیمت اٹھانا پڑی۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہم قیدی کا فرار ہو جانا بہت بڑی ناکامی تھی۔اس کو دوبارہ گرفتار کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہو گا کیونکہ جو شخص ان کی قید میں رہ کر گیا وہ دوبارہ کوئی ایسی غلطی نہیں کرے گا جس سے وہ آسانی سے پکڑا جائے۔میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے مزید کہا کہ دنیا کی تمام تر ایڈوانس ٹیکنالوجیز کے باوجود امریکا کو اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں دس سال لگے۔ جب کہ ایمن الظواہری کا آج تک پتہ ہی نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے،امریکا سمیت دنیا کو نہیں پتہ کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں تو اس طرح کی ناکامیاں ہوتی رہی ہیں اور اس کے مرتکب افراد کو سخت سزا دینی چاہئیے۔اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سزا دی جا چکی ہے تو یقینا دے دی ہو گئی تاہم اس ناکامی کی وجہ سے ادارے کو بہت شرمندگی اٹھانا پڑی۔۔جب کہ احسان اللہ احسان کی پاکستان کی موجودگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ غالب امکان ہے کہ وہ پاکستان میں موجود نہیں ہو گا۔کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ایجنسیاں اس کے پیچھے ہیں تو یہاں پر اس کے لیے چھپنا بہت مشکل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں