محبتوں بھرا دن ۔۔۔ تحریر: تیمور حسن

14 فروری جسے عالمی سطح پر اظہارِ محبت کا دن بھی کہا جاتا ہے یعنی سچے جذبات کے تبادلے اور اپنے اندر رشتوں و انسان کے لیے جاندار احساسات کو پروان چڑھنے تک کہ عمل کو محبت کا نام دیا جائے۔ اس کی روزمرہ زندگی کی دکھ و تکلیف کے ساتھ ہمدرد بن کر زندگی کے ایام کو خوشگوار بنایا جائے خیال رہے کہ یہ ذکر کسی مخصوص صنف کا نہیں کیا جا رہا جو انفرادی طور پر معاملات طے کرتے ہیں مصیبت یہاں یہ بھی ہے کہ محبت اور عزت بانٹنے والوں کو فرسودہ اہل دانش کی تربیت شدہ اصولوں کی پیروی اور رشتوں سے محبت کے اظہار کے لیے مذہبی عقائد و رہنمائی اور پھر 14 فروری کا دن ایک الجھاؤ ہے جو کئی صدیوں سے اِس معاشرے کا حصہ ہیں پتا نہیں کیوں اِس سے تنگی سی محسوس ہوتی ہے ایک طرف ٹی وی پر 14 فروری کی خصوصی ٹرانسمیشن اور دوسری طرف بے حیائی سَطر اُترائی جیسے الفاظ ذہن میں سماتے نہیں ہیں کہیں ایسا تو نہیں گرد چہرے پر تھی اور آئینہ صاف کرتے رہے کسی بھی تہوار اور رواج جو کسی بھی سوسائٹی کا حصہ ہو وہ خود تو کسی غلط درست کا فیصلہ نہیں کر سکتے اس کا فیصلہ شخصیت میں موجود عناصر کی بنیاد پر ہو گا کہ اُس کے خون کی تاثیر کیا ہے اس بات میں کوئی دو رائے موجود نہیں کہ عزتوں سے کھیلنے والے افراد اِسی دن کا انتخاب کرتے ہیں پر اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ دوسرے دنوں میں پارسائی کے ایام بسر کرتے ہیں، نہیں دوسرے دنوں کی نسبت اِن دنوں میں پھولوں کی قیمتوں میں اضافہ ایمانداری ہے؟؟؟

ساری زندگی سچے جذبات کے اظہار کے لیے ترستے رشتوں کی جھولی میں جلتے انگارے ڈالے منہ پر چپ کی پٹی باندھے نفرت کی تجارت پر بھی مذہبی عقائد لاگو ہوتے ہیں۔ہم سب گھٹن زدہ نفرت آمیز ماحول کی پیدائش ہیں جہاں پیدا ہوتے ہی نفرت کے جال کی ڈوریاں بُونی جاتی ہیں “نفرت نفرت نفرت” اِسی لفظ کی گھٹی نومولود کو دی جاتی ہے اُسے آمد حیات پر قدرت کی طرف سے عطا کردہ خطاب “اشرف المخلوقات” اس سے صاف صاف پھیرنے کا درس دیا جاتا ہے اوپر سے اردگرد موجود گھر والے بچے کا منہ سے لے کر خوشی میں شریک ہونے کے خواہش مند قربتداروں تک تمام مراحل کو صیغہ راز میں رکھنے کا عہد لے رہے ہوتے ہیں ۔اس سے آگے لکھنا محال ہوتا جا رہا ہے ان تمام تر معاملات میں کوئی محبت اور عزت کی بات کرے تو منہ نوچنے والی بات ہے بس چاہت کا اظہار ضروری ہے جو امرالہیٰ بھی ہے جیسے انسانوں پر وہی کیا گیا ہے اسے کسی ایک مخصوص رشتے پر نچھاور کرتے رہنا دیگر تمام رشتوں سے اجنبیت کا اظہار کسی طرح بھی اہل محبت کے ہاں درست نہیں ماحول سے تعفن زدہ سوچ کو مار کر زندگی کی چند گِنی ہوئی سانسوں پر بھرم کی سرخ پٹی باندھیں جو آج کے دن کا مخصوص رنگ بھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں