ہمارے ہاتھوں بے گناہ قتل ہوا،کیس میں گرفتارپولیس اہلکاروں نے اعتراف کرلیا

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اسامہ ستی کو قتل کرنے والے ملزمان نے نوجوان کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا۔تفصیلات کے مطابق آج اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں اسامہ ستی قتل کی سماعت ہوئی جس میں ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔سماعت کے دوران جج راجہ جواد عباس نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیس میں کیا پیش رفت ہے؟ اس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان اعتراف جرم کر رہے ہیں کہ ان کے ہاتھوں بےگناہ شہری کی جان گئی۔عدالت پوچھا کہ آپ نے ملزمان کا بیان قلمبند کر لیا ہے جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزمان کا تاحال مجسٹریٹ کے سامنے بیان قلمبند نہیں ہو سکا۔

جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ چاہئیہے لہذا ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 5 روز کی توسیع کی جائے۔ملزمان کا 364کا اعترافی بیان بھی لیا جائے گا۔عدالت نے تفتیشی افسر کی استدعا پر پانچوں ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 5 روز کی توسیع کر دی۔ملزمان کو دوبارہ 18جنوری کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔کیس کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ واقعہ پولیس میں ایس او پیز کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیش آیا ، وائرلیس ریکارڈ میں بھی اہم ثبوتوں کی نشاندہی ہوئی ہے ، نوجوان کو قتل کرنے کے اس واقعے کے بعد ڈیوٹی آفیسر نے قصورواروں کو بچایا اور جرم چھپایا۔ رپورٹ میں پانچوں اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا ، ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش کردی گئی ، ذرائع کے مطابق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رانا محمد وقاص کی جانب سے کی گئی اسامہ ستی قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ وزارت داخلہ کو جمع کروادی گئی ، جس میں پانچوں اے ٹی ایس اہلکار کو قتل کا ذمہ دارقرار دیا گیا ہے ، جن کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق متعلقہ ایس پی اورڈی ایس پی نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ، دونوں افسران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جب کہ ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت مقدمہ چلایاجائے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے ٹی ایس کمانڈوزکی تعیناتی کارکردگی کی بنیاد پرہونی چاہیے ، اے ٹی ایس اہلکاروں کو فورسز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، اہلکاروں کی خدمات ایس پی کی منظوری کے بغیرنہیں لی جانی چاہئیں ، جب کہ آئی جی وائرلیس سسٹم کی بہتری کے لیے اقدامات کریں ، اس ضمن میں آئی جی ہدایت جاری کریں کہ آئندہ سنسنی خیزی کی بجائے صرف واقعے کی تفصیل دی جانی چاہیئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں