دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، چین اور روس نے ہاتھ ملالیا

بیجنگ (نیوز ڈیسک) مشہور کہاوت ہے کہ دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے۔اس وقت دنیائے عالم انگڑائی لینے جا رہا ہے۔بیسویں صدی کی تیسری دہائی کا پہلا سال کرہ ارض پر بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہونے کا گیٹ وے بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ عالمی تبدیلیاں بڑی جلدی وقوع پذیر ہوتی نظر آ رہی ہیں،اس وقت دنیا میں پہلے اتحادی تبدیل جبکہ نئے بننا شروع ہو چکے ہیں۔نئے سال کے آغاز میں ہی دنیا کے سبھی ممالک نے اپنے نئے ساتھی بنانے کی طرف رجحان شروع کر دیا ہے۔سپر پاور کی دوڑ پہلے ہی اپنی رفتار بڑھا چکی ہے اور دنیا میں عالمی وباؤں کے ساتھ ساتھ عالمی جنگ کی فضا بھی قائم ہوتی نظر آ رہی ہے۔

امریکہ بہادر دنیا پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کر رہا ہے مگر اس کی جنگوں کی پالیسی اور رعب و طاقت کا خمار اب اسے پیچھے دھکیلنے پر مجبور کر رہا ہے جبکہ اس سے ٹکر لینے کے لیے چین سامنے آ چکا ہے۔بظاہر چین اس وقت دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے جو کہ ایک حقیقت ہے مگر عالمی سطح پر اس کا اعتراف تب ہو گا جب امریکہ چین کے قدموں میں بیٹھنے پر مجبور ہو جائے گا۔تاہم سبھی ممالک نے اس تبدیلی کو پرکھ لیا ہے کہ چین سپر پاور بن چکا ہے لہٰذ ا ا مریکا کا دشمن نمبر ایک روس اب چین کے ساتھ ہاتھ ملا چکا ہے۔اب امریکا کے ایک طرف روس ہے اور دوسری طرف چین جبکہ اس کے سر پر شمالی کوریا سوار بیٹھا ہے۔امریکہ کو شاید اپنے بھیانک انجام کا ابھی احساس نہیں اسی لیے اس نے خود کو مضبوط کرنے کی بجائے مکمل توجہ ایران پر یلغار کرنے کی طرف لگا رکھی ہے۔جبکہ عالمی منظر نامہ کروٹ لیتے ہوئے روس اور چین کو قریب لے آیا ہے۔حالانکہ ان دنوں کورونا وبا نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے مگر اس کے باوجود سال2020میں روس اور چین کے تعلقات میں بہتری آنے کے ساتھ ساتھ دوستی کا ہاتھ بھی بڑھ چکا ہے۔روس اور چین نے کئی تجارتی معاہدے کرنے کے ساتھ ساتھ سفارتی تعلقات میں بھی بہتری لائی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ دنیا میں 25سال کی مشقت کے بعد ایک نیا منظرنامہ سامنے آنے لگا ہے۔سوویت یونین کے دور میں ماسکو کی طرف سے بیجنگ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر اب آپسی تعلقات بہتر ہو چکے ہوئے ہیں۔2021ایسا سال ہے جس میں دونوں ملک دوستی کے ایک ایسے دور میں داخل ہو جائیں گے کہ جس کے بعد امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجتے ہوئے کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو جائے گا۔دیکھتے ہیں اس عالمی منظر نامے کی تبدیلی میں کتنی کہانیاں رقم ہوتی ہیں اورکتنے عناصر تاریخ کا حصہ بنتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں